Maktaba Wahhabi

167 - 181
حدیث کو حاکم کی روایت سے تقویت ملتی ہے ، لہذا وہ سجدۂ تلاوت کیلئے صرف جاتے ہوئے تکبیر کہے، تاہم اگر وہ نماز میں ہو تو سجدے میں جاتے ہوئے اور اسی طرح اس سے اٹھتے ہوئے بھی تکبیر کہے ۔ نیز دیکھئے :نیل الأوطار :۲/۳۱۱ ، سبل السلام : ۲/۳۸۶] اور اہلِ علم کے ما بین اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ کیا سجودِ تلاوت کیلئے بھی وہی شروط ہیں جو نمازِ نفل کیلئے ہیں ، یعنی نجاست سے پاک ہونا ، با وضو ہونا ، ستر کو ڈھانپنا اور استقبالِ قبلہ ۔۔۔ ؟ تو امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ترجیح دی ہے کہ یہ شروط سجودِ تلاوت کیلئے بھی ہیں ، جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ شروط سجودِ تلاوت کیلئے نہیں ہیں ، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ان شروط کا لحاظ کئے بغیر سجدۂ تلاوت کر لیا کرتے تھے۔ [ البخاری : کتاب سجود القرآن باب سجود المشرکین مع المسلمین ] ۔ تاہم ان کا موقف یہ ہے کہ سجدۂ تلاوت شروطِ نماز کے ساتھ کرنا افضل ہے ، اور کسی عذر کے بغیر ان شروط میں سے کسی ایک کو چھوڑنا نہیں چاہئیے ۔ [ شرح صحیح مسلم : ۵/۸۲ ، فتاوی شیخ الإسلام ابن تیمیہ : ۲۳/۱۶۵] اور اسی طرح ابن القیم الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ سجودِ تلاوت میں نماز کی شروط کا پایا جانا ضروری نہیں ۔ [ تہذیب السنن : ۱/۵۳] اور میں نے امام ابن باز رحمۃ اللہ علیہ سے بلوغ المرام کی حدیث : ۳۶۹ کی شرح کے دوران سنا تھا کہ سجودِ تلاوت کیلئے طہارت شرط نہیں ہے ، کیونکہ طہارت تو قراء ت کیلئے شرط نہیں ، تو قراء ت کی بناء پر کئے جانے والے سجدۂ تلاوت کیلئے کیسے شرط ہو گی ؟اور یہ موقف جمہور علماء کے موقف کے خلاف ہے، تاہم ہر مسئلے میں ان کی موافقت لازم نہیں ہے جب تک کہ دلیل موجود نہ ہو ۔
Flag Counter