کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہاں ( قانت ) سے مراد نماز میں بحالتِ قیام قراء تِ قرآن کرنا ہے ۔۔۔ جبکہ کئی علماء نے کہا ہے کہ اس سے مراد اطاعت ہے ۔ [ جامع البیان : ۱/۲۶۷ ] اور حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ﴿ أَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَائَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا ﴾ [ الزمر : ۹] یعنی حالتِ سجدہ اور حالتِ قیام میں ، اور اسی آیت سے بعض اہل علم نے استدلال کیا ہے کہ قنوت کا معنی صرف قیام ہی نہیں ، بلکہ اس کا ایک معنی نماز میں خشوع وخضوع بھی ہے ، اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ( قانت ) بمعنی مطیع ہے ، یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار ۔ [ تفسیر ابن کثیر : ۴/۴۸] اور شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ رکوع وسجود اور قیام میں نماز لمبی کرنا اس سے بہتر ہے کہ مختصر رکو ع وسجود اور قیام کے ساتھ زیادہ رکعات پڑھی جائیں ۔ [ فتاوی ابن تیمیہ : ۲۳ /۷۱ اور انہوں نے ذکر کیا ہے کہ جنسِ سجدہ بارہ وجوہات کی بناء پر جنسِ قیام سے افضل ہے ] اور میں نے امام ابن باز رحمۃ اللہ علیہ سے سنا تھا ، انہوں نے فرمایا : ’’ اہل ِ علم کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا کم سجدے اور لمبا قیام افضل ہے ، یا زیادہ سجدے اور مختصر قیام ؟ چنانچہ ان میں سے بعض نے پہلی رائے اور بعض نے دوسری رائے کو اختیار کیا ہے ، اور جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تعلق ہے تو آپ کی نماز معتدل تھی ، اگر آپ لمبا قیام فرماتے تو رکوع وسجود بھی لمبا فرماتے ، اور اگر آپ مختصر قیام فرماتے تو رکوع وسجود بھی مختصر فرماتے ، اور یہی سب سے افضل ہے ۔‘‘ اور انہوں نے ذکر کیا کہ ’’ سب سے افضل یہ ہے کہ مسلمان اپنی استطاعت کے |