پھر انہوں نے پختہ عزم کر لیا ، اور انہیں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے جمع کردیا، پھر میں دوسری رات کوبھی ان کے ساتھ نکلا تو تمام لوگ ایک ہی قاری کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ، تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ( نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ہٰذِہٖ ، وَالَّتِیْ یَنَامُوْنَ عَنْہَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِیْ یَقُوْمُوْنَ ۔ یُرِیْدُ آخِرَ اللَّیْلِ ۔ وَکَانَ النَّاسُ یَقُوْمُوْنَ أَوَّلَہُ ) ’’ یہ ایک اچھا ‘ نیا کام ہے ، اور یہ جس نماز سے سوئے رہتے ہیں وہ اُس نماز سے بہتر ہے جسے یہ اب پڑھ رہے ہیں ‘‘ ، یعنی رات کے آخری حصے میں ، اور لوگ رات کے ابتدائی حصے میں نماز پڑھتے تھے ۔ [ البخاری : ۲۰۱۰ ] اور یہ تما م احادیث باجماعت نمازِ تراویح اور قیامِ رمضان کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں ، اور یہ کہ جو شخص امام کے ساتھ آخر تک نماز پڑھتا ہے اس کیلئے پوری رات کے قیام کا ثواب لکھا جاتا ہے ۔ اور رہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ ( نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ہٰذِہٖ ) یعنی ’’ یہ ایک اچھا ‘ نیا کام ہے ‘‘ تو اس سے مراد شرعی بدعت نہیں بلکہ لغوی طور پر نیا کام ہے کیونکہ یہ عمل اس سے پہلے اس صورت میں انجام نہیں دیا جاتا تھا ، اس لئے اسے نیا کام قرار دیا ، ورنہ شریعت میں اس نماز کیلئے چند اصول موجود تھے جن کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے ، اور وہ یہ ہیں : (۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے تھے ، اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کچھ راتیں یہ نماز پڑھاتے رہے ، پھر اسے با جماعت پڑھنا اس لئے ترک کردیا کہ کہیں یہ ان پر فرض نہ کردی جائے اور وہ اس سے عاجز آجائیں ، اور یہ |