Maktaba Wahhabi

328 - 336
’’احمد بدوی کے عرس میں ہر سال میرے حاضر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ میرے شیخ عارف باللہ محمد شناوی رضی اللہ عنہ جو ان کے گھر اعیان میں سے ایک ہیں انہوں نے قبر کے اندر سیّدی احمد رضی اللہ عنہ کی طرف رُخ کر کے مجھ سے عہد لیا اور اپنے ہاتھ سے مجھے ان کے حوالے کیا۔ چنانچہ ان کا ہاتھ شریف قبر سے نکلا اور میرا ہاتھ پکڑلیا۔ اور شناوی نے کہا: حضور! آپ کی توجہ ان پر ہونی چاہیے اور آپ انہیں زیر نظر رکھیں۔ اس کے ساتھ ہی میں نے قبر سے سیّدی احمد کا یہ فرمان سنا کہ ’’ہاں۔‘‘ پھر شعرانی مزید آگے بڑھتا ہے اور کہتا ہے: ’’جب میں نے اپنی بیوی فاطمہ ام عبدالرحمن کو جو کنواری تھی رخصت کرایا تو پانچ مہینے تک رُکا رہا اور اس کے قریب نہیں گیا۔ اس کے بعد سیّدی احمد تشریف لائے، اور مجھے ساتھ لیا اور بیوی ساتھ میں تھی۔ اور قبر کا جو گوشہ داخل ہوتے ہی بائیں واقع ہے اس کے اوپر بستر بچھایا ، اور میرے لیے حلوہ پکایا اور زندوں اور مردوں کو اس کی دعوت دی اور فرمایا کہ یہاں اس کی بکارت زائل کرو۔ چنانچہ اس رات وہ کام ہوا۔‘‘ پھر لکھا ہے: ’’میں ۹۴۸ھ میں عرس کے اندر وقت مقررہ پر حاضر نہ ہو سکا اور وہاں بعض اولیاء موجودتھے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ سیّدی احمد رضی اللہ عنہ اس روز قبر کا پردہ ہٹاتے تھے اور کہتے تھے کہ عبدالوہاب نے دیر کر دی، آیا نہیں۔‘‘[1] غرض ! یہ ہیں بُرے نمونے جن کے متعلق چاہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے بچے انہیں کے نقش قدم پر چلیں اور یہ ہے تصوف کا حقیقی چہرہ اور یہ ہیں اس کے رموز اور رجال کی صورتیں۔ اگر ہم ان صورتوں کو گننا شروع کر دیں تو اس مختصر رسالہ میں میانہ روی سے باہر نکل جائیں
Flag Counter