Maktaba Wahhabi

324 - 336
اس کے بعد ابن عقیل کہتے ہیں: اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ یہ لوگ تو صاف ستھرے ، اچھے طور طریقے والے اور بااخلاق لوگ ہیں، تو میں ان سے کہوں گا کہ اگر یہ لوگ کوئی ایساطریقہ نہ اپنائیں جس سے اپنے جیسے لوگوں کا دل کھینچ سکیں تو ان کی عیش و عشرت ہمیشہ رہ ہی نہ سکے گی اور ان کا جو حال تم ذکر کر رہے ہو تو وہ تو عیسائیوں کی رہبانیت ہے اور اگر تم دعوتوں کے اندر طفیلی بننے و الوں اور بغداد کے زنخوں کی صفائی ستھرائی دیکھو او ر ناچنے والوں کی نرم اخلاقی کا مشاہدہ کرو، تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ ان کا طریقہ ظرافت اور فریب کاری کا طریقہ ہے۔آخر ان لوگوں کو طور طریقے یا زبان ہی سے تو دھوکا دیاجا سکتا ہے، اگر ان لوگوں کے پاس علم کی گہرائی بھی نہ ہو اور کوئی طور طریقہ بھی نہ ہو تو آخر یہ کس طرح مالداروں کا دل کھینچیں گے۔ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ احکامِ الٰہی کی تعمیل مشکل کام ہے اور بدکاروں کے لیے اس سے زیادہ کوئی بات آسان نہیں کہ معاشرے سے الگ تھلگ رہیں۔ اور اس سے زیادہ کوئی مشکل بات نہیں کہ شریعت کے اوامر و نواہی کی روشنی میں صادر ہونے والی رکاوٹ کی پابندی کریں۔ درحقیقت شریعت کے لیے متکلمین لوگوں کے عقائد کو عقلی شبہات کا وہم لا کر فاسد کرتے ہیں اور وہ لوگ ( اہل تصوف) لوگوں کے اعمال خراب کرتے، دین کے قوانین کو ڈھاتے، بیکاری کو پسند کرتے اور گانے وغیرہ سننے سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ حالانکہ سلف ایسے نہیں تھے۔ بلکہ عقائد کے باب میں بندہ تسلیم و رضا تھے اور دو سرے ابواب میں حقیقت پسند و جفاکش۔ وہ کہتے ہیں: اپنے بھائیوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ ان کے دلوں کے افکار میں متکلمین کی بات نہیں پڑنی چاہیے اور ان کا کان صوفیوں کی خرافات کی طرف نہیں لگنا چاہیے بلکہ معاش کے کام میں مشغول ہونا صوفیوں کی بیکاری سے بہتر ہے اور ظواہر پر ٹھہرے رہنا نام نہاد دین پسندوں کی وقت پسندی سے افضل ہے میں نے دونوں گروہوں کے طریقے آزما لیے ہیں، ان لوگوں کا منتہا کمال شک ہے اور ان لوگوں کا منتہا کمال شطح ہے۔‘‘ (تلبیس ابلیس، ص: ۳۷۵، ۳۷۴)
Flag Counter