Maktaba Wahhabi

321 - 336
رضامندی کے بغیر دوسروں پر تقسیم کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ خرقہ کا فیصلہ ہے۔‘‘ ابن عقیل کہتے ہیں کہ حالانکہ مسلمانوں کا کوئی شیخ ایسا نہیں جس کو اس کے حال پر چھوڑا جا سکے اور اس کے احوال تسلیم کیے جا سکیں۔ کیونکہ یہاں کوئی شیخ ایسا نہیں جو دائرۂ تکلیف میں نہ ہو ۔ پھر پاگلوں اور بچوں کے ہاتھ مارا جاتا ہے اور یہی سلوک چوپایوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے کہ خطاب کے بدلے مار پڑتی ہے۔(پس صوفیوں کے مشائخ کو ان کے حال پرکیونکر چھوڑا جا سکتا ہے) ہاں اگر کوئی شیخ ایسا ہوتا جسے اس کے حال پر چھوڑا جا سکتا تو وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوتے ۔مگر ان کا بھی ارشاد ہے کہ ’’اگر میں ٹیڑھا ہو جاؤں تو مجھے سیدھا کر دو۔‘‘یہ نہیں فرمایا کہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ پھر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ کس طرح آپ پر بھی صحابہ نے اعتراض کیا کیونکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھو کہ انہوں نے آپ سے کہا کہ ہم نماز قصر کیوں کریں؟ جب کہ حالت امن میں ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے صحابی نے کہا کہ آپ ہمیں وصال سے (یعنی بغیر پے درپے روزہ رکھنے سے) کیوں منع کرتے ہیں۔ جب کہ آپ خود وصال کرتے ہیں؟ اور ایک صحابی نے کہا کہ آپ ہمیں حج کے احرام کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا حکم دے رہے ہیں ، اور خود ایسا نہیں کر رہے ہیں؟ پھر اور آگے بڑھو، دیکھو اللہ پر اعتراض ہوتا ہے۔ یعنی تخلیق آدم کے مو قع پر اس سے فرشتے کہتے ہیں {اَتَجْعَلُ فِیْہَ… الخ} ’’اے اللہ! کیا زمین میں ایسی مخلوق کو بنائے گا جو فساد مچائے گی… الخ‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ سے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا {اَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَہَائُ مِنَّا} ’’کیا تو ہمارے بیوقوفوں کی کرنی پر ہمیں ہلاک کرے گا۔‘‘ واضح رہے کہ صوفیوں نے یہ بات ( کہ شیخ پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا) اپنے اگلوں کو خوش کرنے اور تابعداروں اور مریدوں پر اس کے سلوک کا سکہ بٹھانے کے لیے ایجاد کی ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہُ فَاَطَاعُوْہُ} ’’فرعون نے اپنی قوم کو حقیر جانا تو انہوں نے اس کی بات مان لی۔‘‘ اور غالباً یہ بات انہی لوگوں نے ایجاد کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بندہ جب اپنے آپ کو پہچان لے تو جو بھی کرے اسے کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔
Flag Counter