Maktaba Wahhabi

315 - 336
غایتوں کی غایت، ارادتوں کا منتہا، پہنچے ہوئے کاملین کا مقام اور عارفین کی اُمیدوں کی آخری منزل قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بد دینوں، زندیقوں ، برہموں ، ہندوؤں اور یونان کے پرانے فلسفیوں کا عقیدہ ہے اور اس کے بعد تصوف میں جو برائی بھی داخل ہوئی وہ یقینا اسی ملعون عقیدے کی تاریکی میں چھپ کر داخل ہوئی۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ آج روئے زمین پر تصوف کی حقیقت کو جاننے والا کوئی بھی صوفی اس کا انکار نہیں کر سکتا اور نہ اسے بُرا کہہ سکتا ہے بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ ان لوگوں کا علم صرف اربابِ ذوق اور اہل معرفت ہی سمجھ سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات واضح عربی زبان میں صاف صاف لکھی ہوئی ہے۔ ان حضرات نے اسے ضخیم ضخیم کتابوں میں لکھا ہے اور نثر اور شراء اور قصیدوں اور امثال سے اس کی شرح کی ہے۔ البتہ بعض اہل تصوف اس سلسلے میں یہ معذرت کرتے ہیں کہ یہ بات وجود کے غلبے اور شطحیات کے طور پر کہی گئی ہے مگر معلوم ہے کہ شطح درحقیقت مدہوشی، پاگل پن اور جنون کو کہتے ہیں او ر اہل تصوف کا دعویٰ ہے کہ ان کے یہ احوال کامل ترین احوال ہیں۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ جنون اور پاگل پن کمال کیونکر ہو سکتا ہے ؟ پھر جو بات دسیوں جلدوں میں لکھی اور مدون کی گئی ہے اور جسے اہل تصوف کی غایۃ الغایات اور اُمیدوں کی آخری منزل قرار دے کر لوگوں کو اس کی دعوت دی جارہی ہے وہ بات شطحیات (پاگل پن کی بات) کیسے ہو سکتی ہے؟ کبھی کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ باتیں گھڑ کر ان کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں… مگر یہ بھی حقیقت صوفیوں کے جھوٹ اور فریب کاری کا ایک حصہ ہے۔ میں ہر صوفی کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ کسی معین عبارت کو ذکر کر کے بتائے کہ یہ غلط طور پر ان کی طرف منسوب کی گئی ہے یا کسی خاص اور معین عقیدے کو ذکر کر کے بتائے کہ فلاں لکھنے والے کی طرف اسے غلط منسوب کیا گیا ہے۔ بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے، جب کہ اس سلسلے میں پوری پوری کتاب لکھ ماری گئی ہے۔ آراستہ و پیراستہ عقیدے تصنیف کر ڈالے گئے ہیں اور موزوں و خوش آئن قصیدے کہہ ڈالے گئے ہیں۔ میں کسی بھی صوفی کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ بتائے کہ یہ قصیدہ غلط
Flag Counter