(وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ وَلَوْ أَنْزَلْنَا مَلَكًا لَقُضِيَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُونَ
وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَا يَلْبِسُونَ) (الأنعام: ۸۔ ۹)
’’ اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا اور اگر ہم کوئی فرشتہ بھیج دیتے تو سارا قصہ ہی ختم ہو جاتا ، پھر ان کو ذرا مہلت ہی نہ دی جاتی اور اگر ہم اس کو فرشتہ تجویز کرتے ، تو ہم اس کو آدمی ہی بناتے اور ہمارے اس فعل سے ان پر پھر وہی اشکال ہو تا جو اب اشکال کر رہے ہیں۔ ‘‘
اور فرمایا:
(وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ )(التکویر: ۲۳)
’’ اس نے اس (فرشتے) کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔ ‘‘
(وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ) (التکویر:۲۴)
’’ اور وہ غیب کی باتیں بتلانے میں بخیل بھی نہیں ہے۔ ‘‘
’’ظنین‘‘ سے مراد متہم ہے ، دوسری قراء ت میں ’’ضنین‘‘ ہے جو بخیل کے معنی میں ہے۔ جو علم کو چھپائے اور کچھ لیے بغیر ظاہر نہ کرے ، جیسا کہ علم چھپانے والے معاوضہ کے بغیر اپنا علم ظاہر نہیں کرتے۔
(وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ) (التکویر: ۲۵)
’’ اور نہ وہ شیطان مردود کی بنائی ہوئی باتیں ہیں۔ ‘‘
یہاں اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو اس بات سے پاک و صاف قرار دیا کہ وہ شیطان ہیں بالکل ایسے ہی جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شعر و کہانت سے دور اور مبرا قرار دیا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کے متقی ولی ہی ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں ، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اسے بجالاتے ہیں ، اور جس بات سے روکا ہے اس سے رک جاتے ہیں ، اور جن باتوں کے اندر آپ نے اپنی اتباع کرنے کی وضاحت فرمائی ہے ان میں
|