Maktaba Wahhabi

184 - 338
لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ اُوْلٰٓئِکَ مُبَرَّئُ وْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیمٌ} [النور: ۲۶] ’’ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لیے اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے یہ (پاک لوگ) ان کی باتوں سے بَری ہیں (اور) ان کے لیے بخشش اور نیک روزی ہے۔‘‘ اگر اس آدمی کے بقول [خاکش بدہن] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خبیث ٹھہریں تو [نعوذ باللہ] نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایسی تہمت عائد ہوسکتی ہے لہٰذا یہ شخص کافر ہے اسے قتل کردو۔ چنانچہ اسے قتل کردیا گیا۔[1] ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جس الزام سے اللہ تعالیٰ نے بَری قرار دے دیا ہے اس کو لے کر ان پر طعنہ زنی و بہتان تراشی کرنا قاضی ابو یعلی کے نزدیک کفر ہے اور وہ کہتے ہیں کہ کئی ائمہ نے اس کا یہی حکم ذکر کیا ہے اور متعدد اہلِ علم و نظر نے اس بات پر اجماع ہونا بیان کیا ہے جس کی تفصیلات شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب الصارم المسلول (ص: ۵۶۵، ۵۶۶) میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی دوسری ام المؤمنین زوجۂ رسول کو گالی دی یا برا بھلا کہا اس کا بھی دو میں سے صحیح ترین قول کی رو سے وہی حکم ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر طعنہ زنی کرنے والے کا ہے کہ وہ بھی بلا اختلاف کافر و مرتد اور واجب القتل ہے۔ [2] (الصارم المسلول، ص: ۵۶۷) اسی طرح ائمہ و علما کے کئی فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی
Flag Counter