Maktaba Wahhabi

309 - 322
والوں پرلعنت کی۔ ایسے لوگوں کے لیے قتل، زندہ جلانے اور سنگسار کرنے کی جسمانی سزائیں مقرر کی گئیں۔ معنوی سزاؤں میں سے زانیہ کا رذیل و ذلیل ہونا، رب کی جماعت سے خارج ہونا اور اس کی نذر کا قبول نہ ہونا، بیان کی گئیں۔ معنوی سزاؤں کی سنگینی کے بُرے اثرات کے آئندہ نسلوں کی طرف منتقل ہونے سے آگاہ کیا، چنانچہ حرام زادے کی دسویں پشت تک کوئی بھی [خداوند کی جماعت] میں داخل نہیں ہوتا۔ زنا سے بچاؤ کی خاطر دوشیزہ کی طرف دیکھنے، عورتوں سے گفتگو کرنے، ان کی ہم نشینی اختیار کرنے، بدکار عورت سے ملاقات کرنے اور کاہنوں کے لیے ان کے ساتھ شادی کرنے کی ممانعت کردی گئی۔ غیر محرم مرد کی شرم گاہ پکڑنے والی عورت کا ہاتھ کاٹنے کی سزا مقرر کی گئی۔ پاک دامن بیاہی جانے والی دوشیزہ پر تہمت لگانے والے شوہر کے لیے کوڑوں، سو مثقال بطور جرمانہ ادا کرنے اور تاعمر اس خاتون کو اپنے نکاح میں رکھنے اور طلاق نہ دینے کی سزائیں اور پابندیاں لگائی گئیں۔ یہودی قدیم زمانے سے ہی زنا کے متعلق تورات کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے، انھیں چاہیے، کہ اہلِ اسلام پر، شرعی حدود کے قائم کرنے کی وجہ سے، تنقید کی بجائے، اپنی [مقدس کتاب] میں بیان کردہ سزاؤں کو بدکاروں پر جاری کریں۔ ب: عیسائیت کا موقف: زنا کبیرہ گناہوں میں سے اس قدر سنگین ہے، کہ اسے بت پرستی کے برابر قرار دیا گیا۔ یہ غضبِ الٰہی کا سبب ہے۔ اس کی بنا پر ایک ہی دن میں تیئس ہزار آدمی ہلاک کردیے گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے واضح طور پر بیان فرمایا، کہ وہ یہودیت کی تنسیخ کے لیے نہیں، بلکہ اس کی تکمیل کی خاطر آئے ہیں۔ اسی بنا پر تورات میں زنا کی بیان کردہ سزائیں عیسائیت میں بھی واجب العمل ہوں گی۔ باقی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے ایک بدچلن عورت پر حد قائم نہ کرنے کا واقعہ، اگر تحریف سے محفوظ بھی تسلیم کرلیا جائے، تو شاید یہ ایک استثنائی صورت تھی، جیسا کہ انجیل ہی میں ہے، کہ حضرت
Flag Counter