Maktaba Wahhabi

198 - 322
’’یہ نیا کلام ہے۔ سابقہ (بات) کی تاکید کرتا ہے اور اللہ عزوجل کے نزدیک ان کے بُرے حال کو واضح کرتا ہے۔ اسم اشارہ [أولئک] میں دُوری کا معنٰی شر و فساد میں ان کے دُور نکل جانے کی خبر دیتا ہے۔ مراد یہ ہے، کہ نافرمانی، طاعت سے نکلنے، حدود سے تجاوز کرنے اور اس بارے میں انتہا کو پہنچنے کا ان پر حکم لگایا گیا ہے، گویا کہ وہ ہی لقب [فسق] کے، دیگر نافرمانوں کی بجائے، تنہا مستحق ہیں۔‘‘[1] ۷: علمائے امت کا اس بات پر اجماع ہے، کہ مردوں اور خواتین پر زنا کی تہمت لگانے کی سزا ایک جیسی ہے۔ نصوص میں خواتین کا خصوصی طور پر ذکر اس حوالے سے، ان کی زیادہ اہمیت اور ان پر اس بہتان باندھنے کی شدید سنگینی کی بنا پر کیا گیا ہے۔[2] ۸: تہمت لگانے والی اگر خواتین ہوں، تو ان کی سزا بھی وہی ہے، جو تہمت لگانے والے مردوں کی ہے۔[3] ۹: سید قطب لکھتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے زنا کی تہمت لگانے کی شدید سزا مقرر فرمائی ہے اور یہ غیر شادی شدہ زانی کی سزا کے قریب قریب ہے، یعنی اسّی (۸۰) درّے، شہادت کی عدمِ قبولیت اور [فاسق] ہونے کا لقب۔ ان میں سے پہلی سزا جسمانی، دوسری ادبی اور تیسری دینی ہے۔ سو ایسا شخص ایمان سے منحرف اور اس کی راہ سے باہر ہے۔[4] جب کسی پاک باز شخص پر زنا کا بہتان لگانا اس قدر سنگین اور اس کی سزا اتنی زیادہ شدید ہے، تو خود زنا کا ارتکاب کرنے والے کا معاملہ کیسا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور
Flag Counter