د: (یُبْغِضُہُمُ اللّٰہُ): یعنی ان سے نفرت اور دشمنی رکھیں گے۔ اور یہ سزا ان کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں ہیں۔ واللّٰہ تعالیٰ أعلم۔
ہ: (وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ): یعنی ان ہی کے لیے بہت دردناک عذاب ہے۔
علامہ واحدی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’وہ ایسا عذاب ہوگا، جس کی اذیّت ان کے دلوں تک پہنچے گی۔‘‘[1]
و: (لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ): یعنی جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔
اس سے مراد ۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔ یہ ہے، کہ وہ دیگر اہلِ ایمان کی طرح حساب و کتاب کے بعد سیدھے جنت میں داخل نہیں ہوں گے، بلکہ اپنی کرتوتوں کی سزا پانے کے لیے پہلے دوزخ میں داخل کیے جائیں گے۔
۲: امام ابن حبان نے دوسری روایت پر حسبِ ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
[ذِکْرُ وَصْفِ أَقْوَامٍ یُّبْغِضُہُمُ اللّٰہُ جَلَّ وَعَلَا مِنْ أَجْلِ أَعْمَالٍ اِرْتَکَبُوْھَا] [2]
[قوموں کے اوصاف کا ذکر، جن سے اللہ تعالیٰ اُن کی کرتوتوں کی بنا پر نفرت اور دشمنی رکھتے ہیں]
۳: پہلی روایت میں ذکر کردہ لوگوں کے عذاب کی سنگینی کی حکمت کے متعلق علامہ قرطبی لکھتے ہیں:
ان تینوں کی سزا اس لیے سنگین ہوئی، کیونکہ ان گناہوں کے ارتکاب کا باعث صرف اُن کی ہٹ دھرمی اور اُن گناہوں کے کرنے کو معمولی بات سمجھنا ہے۔
|