Maktaba Wahhabi

167 - 322
غضب کس قدر شدید ہے، کہ اہلِ ایمان سے ان کے تعلق توڑنے کا اعلان کردیا گیا! کسی ایمان والے کو اُنھیں رشتہ دینے یا اُن سے لینے کی اجازت نہیں۔ اسی بات کو اچھی طرح سمجھنے کی غرض سے نو علمائے امت کی تحریریں ملاحظہ فرمائیے: ۱: [اپنی عزیزہ کا فاسق سے نکاح کرنے والے شخص] کے متعلق امام شعبی نے فرمایا: ’’مَنْ زَوَّجَ کَرِیْمَتَہُ مِنْ فَاسِقٍ فَقَدْ قَطَعَھَا۔‘‘[1] ’’جس شخص نے اپنی عزیزہ کا نکاح فاسق شخص سے کیا، تو اس نے اس سے قطعی رحمی کی۔‘‘ ۲: [ایسے نکاح کی شرعی حیثیت] کے متعلق امام احمد فرماتے ہیں: ’’لَا یَصِحُّ الْعَقْدُ مِنَ الرَّجُلِ الْعَفِیْفِ عَلَی الْمَرْأَۃِ الْبَغِیِّ مَا دَامَتْ کَذٰلِکَ حَتّٰی تُسْتَتَابَ، فَإِنْ تَابَتْ صَحَّ الْعَقْدُ عَلَیْہَا وَإِلَّا فَلَا۔ وَکَذٰلِکَ لَا یَصِحُّ تَزْوِیْجُ الْمَرْأَۃِ الْحُرَّۃِ الْعَفِیْفَۃِ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ الْمُسَافِحِِ حَتّٰی یَتُوْبَ تَوْبَۃً صَحِیْحَۃً لِّقَوْلِہٖ تَعَالیٰ: {وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ}‘‘[2] ’’پاک باز مرد کا زانیہ سے جب تک وہ زانیہ رہے، نکاح منعقد نہیں ہوتا، یہاں تک کہ وہ توبہ کرلے۔ وہ توبہ کرلے، تو نکاح کا انعقاد درست ہوگا، وگرنہ نہیں۔ اسی طرح پاک دامن آزاد خاتون کا فاجر بدکار آدمی سے اس کے صحیح توبہ کرنے تک نکاح کرنا درست نہیں۔ یہ (حکم) ارشادِ تعالیٰ
Flag Counter