Maktaba Wahhabi

48 - 184
دیتا ہے۔اور ایسے لوگوں پر یہ انعام بھی ہوجاتاہے کہ ان کا ایمان اللہ تعالیٰ پر توکل کی وجہ سے بڑھتا رہتا ہے ؛ اس میں کمی نہیں آتی ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَاناً وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ﴾ [الانفال:2] ’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل رکھتے ہیں ۔‘‘ جب انسان ساری دنیا سے کٹ کر اپنے دینی اور دنیاوی تمام اُمور میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرلیتاہے تواس کے اخلاص میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا اور اس کا معاملہ اللہ سے ہوجاتا ہے ۔ اللہ پرتوکل ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ کی بڑی منازل میں سے ایک منزل ہے ۔ لہٰذا توحیدکی تینوں قسمیں اس وقت تک مکمل نہ ہوں گی جب تک اللہ پرتوکل کامل نہ ہو گا۔ توکل سچے اسلام و ایمان کی نشانی ہے۔ جیسا کہ زیر نظرآیت سے واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ قَالَ مُوْسٰی یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ﴾ [یونس:84] ’’موسیٰ نے اپنی قوم سے کہاکہ لوگو! اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو، اگرمسلمان ہو۔‘‘ توکل کے عبادت ہونے کی ایک مقام پر یوں وضاحت فرمائی ہے: ﴿رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا ﴾ [المزمل:9] ’’وہ مشرق و مغرب کا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے لہٰذا اسی کو اپنا وکیل بنالو۔‘‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’توکل صرف دل کا عمل ہے۔‘‘
Flag Counter