ہے اس میں سے ہم کو بھی دے گا یا کسی بیرونی طاقت کے شر سے بچاؤ کی امید کرلی جائے تو یہ توکل بھی حرام اور ناجائزہے۔
توکیل:....[وکیل بنانا]: کسی انسان کو اپنی طرف سے کوئی ایسا کام کرنے کے لیے نائب مقرر کردینا جس کام کے کرنے کی صلاحیت نائب میں موجود ہوایسا کرنا جائزہے۔
اہم فائدہ:....سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
((حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ قَالَہَا اِبْرَاہِیْمُ حِیْنَ اُلْقِیَ فِی النَّارِ۔ وَ قَالَہَا مُحَمَّدٌ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حِیْنَ قَالُوْا لَہٗ:﴿ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ﴾۔)) [رواہ البخاری والنسائی]۔
((حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ)) ’’ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے ۔‘‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اُس وقت کہا تھا جب انہیں آگ میں ڈالا گیا تھا۔ اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت کہا تھا جب اختتام پر لوگوں نے کہا کہ دشمن تمہارے لیے فوجیں جمع کر رہا ہے اس سے ڈرو، تو اس سے مسلمانوں کا ایمان اور مضبوط ہوا اور بڑھا۔‘‘
جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل کرے اور اسی کی طرف رجوع کرے،اللہ تعالیٰ اس کا کفیل اور کار ساز بن جاتا ہے کیونکہ وہی ایک ذات کبریا ایسی ہے جس کی جناب میں خوف زدہ کو اطمینان حاصل ہوتااور امن کے متلاشی کو پناہ ملتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے :
﴿وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ﴾[الطلاق 3]
’’اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر توکل کرلے تو وہ اسے کافی ہے‘‘۔
پس جو شخص اللہ تعالیٰ کا دوست بن جائے،اور اسی پر توکل کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے اس کو اپنی حفاظت و امان و پناہ میں لے لیتا اور اطمینان کی دولت سے نوازتا ہے۔ اور پھر جس چیز کی بندے کو ضرورت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ وہ چیز فراوانی سے اس کو عطا فرما
|