Maktaba Wahhabi

311 - 336
جانے کا اعلان ہے۔ اس لیے اس کے پیغام رساں نے آدم سے یہ جھوٹ کہا کہ بعینہٖ یہی درخت ہمیشگی کا درخت ہے، اور اسے ورغلایا کہ وہ اپنی بیوی سے جسمانی اختلاط کرے۔‘‘ (ص: ۶۴) پھر ڈاکٹر صاحب اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ یہ بھی یقین کرتے ہیں کہ حوا علیہا السلام اسی جنسی اختلاط کے دوران میں حاملہ ہوگئیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’پھر ہم دیکھتے ہیں کہ درخت چکھ لینے کے بعد قران مجید ان دونوں کو یوں خطاب کرتا ہے کہ وہ جمع ہیں۔ چنانچہ کہتا ہے: {اِہْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٍّ} ’’تم سب اُتر جاؤ، تم میں سے بعض، بعض کا دشمن ہو گا۔‘‘ حالانکہ اس غلطی سے قبل انہی آیات میں خطاب مثنی( دو) کو ہوا کرتا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس درخت سے کھانا تکاثر کا سبب بنا۔‘ ‘ (ص: ۶۲) پھر اس ساری ہذیان کے بعد موصوف فرماتے ہیں: ’’ان مسائل میں ہمارے لیے قطعی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں بلکہ یہ کہنا ضروری ہے کہ وہ درخت اب بھی ایک چیستاں ہے اور پیدائش کا معاملہ اب بھی ایک غیبی معاملہ ہے جس کے بارے میں ہم اجتہاد سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اللہ اپنی کتاب کو بہتر جانتا ہے اور صرف وہی ہے جو اس کی تاویل سے آگاہ ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں کہ جب معاملہ ایسا ہے تو پھر آپ نے یقین کے ساتھ کوئی بات کیسے کہی، او ر ابھی ابھی وہ تفسیر کیسے کر دی جو آپ کو شیریں لگ رہی تھی اور اللہ پر اور اس کی کتاب پر جو کچھ چاہا بغیر علم و ہدایت کے کیسے کہہ دیا اور معانی قرآن کے سلسلے میں سارے دعوے کیسے ہانک دیے جو آپ کی خواہش اور رائے کے مو افق تھے۔ پھر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ان سب کے باوجود ڈاکٹر مصطفی محمود خود ہی قرآن کی باطنی تفسیر کرنے والے بہائیوں پر زور وشور سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک موقع پر لکھتے ہیں:
Flag Counter