Maktaba Wahhabi

216 - 336
((إِنَّکُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَیَّ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ أَلْحَنَ مِنْ بَعْضٍ، وَاِنَّمَا أَقْضِیْ بِنَحْوِ مَا أَسْمَعُ ، فَمَنْ قَضَیْتُ لَہُ مِنْ حَقِّ أَخِیْہِ شَیْئًا فَلَا یَاْخُذْہُ فَاِنَّمَا أَقْطَعُ لَہُ قَطْعَۃً مِنْ نَّارٍ۔)) [1] ’’تم لوگ اپنے جھگڑے میرے پاس لاتے ہو ، ممکن ہے تم میں سے بعض دوسرے کی بہ نسبت حجت پیش کرنے میں زیادہ ہوشیار ہوں اور میں فیصلہ اسی کے بطابق دیتا ہوں جو میں سنتا ہوں۔ اس لیے جس شخص کے حق میں یہ فیصلہ دے دیا جائے کہ اسے اپنے بھائی کے حق میں سے کچھ نا جائز طور پر مل گیا ہو ، تو وہ نہ لے ، کیوں کہ وہ آگ کا ٹکڑاہوتا ہے۔ ‘‘ سید خلق محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی کہ اگر کسی کے حق میں اس کا بیان سن کر فیصلہ دے دیا ہو اور حقیقت میں اس شخص کا حق نہ ہو تو اس کے لیے وہ چیز لینا جائز نہیں ، کیوں کہ اسے تو جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دیا گیا ہے۔ یہ تو مطلق ملکیت کے بارے میں علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جب حاکم شہادت و اقرار جیسی شرعی دلیل دیکھ کر فیصلہ دے دے مگر حقیقت اس کے برعکس ہو ، تو جس کے حق میں فیصلہ دیاگیاہو ، اس کے لیے وہ چیز لینا حرام ہے اور اگر معاملات اور فسخ معاملات کے ضمن میں یہی کیفیت ہو تو اکثرعلماء کے نزدیک جیسا فیصلہ ہو گیا ہے عمل اسی کے مطابق جائز ہے۔ یہ مذہب امام مالک ، شافعی اور احمد بن حنبل کا ہے ، ابو حنیفہ دونوں نوعیّتوں کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ لفظ ’’ شرع‘‘ اور ’’ شریعت ‘‘ سے مراد کتاب و سنت لیا جائے تو اولیاء وغیرہ میں سے کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس سے باہر نکلے ، اگر کوئی یہ گمان کرے کہ اللہ کی جانب جانے کا راستہ باطنی اور ظاہری اعتبار سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے برعکس ہے تو وہ کافر ہے۔
Flag Counter