النَّارُ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْہَا وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾[ھود15۔16]
’’جو لوگ بس اِسی دُنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں اُن کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (وہاں معلوم ہو جائے گا کہ) جو کچھ اُنہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔‘‘
اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان اگر دنیوی اغراض کے پیش نظر کوئی عمل کرے تو یہ بھی شرک کی تعریف میں آتا ہے۔
فائدہ:.... ایک مؤمن انسان ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اچھی امید وابستہ رکھتا ہے؛ وہ کبھی مایوس اور نا امید نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا یہ کلام نقل کیا ہے ‘ فرمایا:
﴿وَ لَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾[یوسف 87]
’’اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو کافر ہیں ‘‘۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
(( اَکْبَرُ الْکَبَآئِرِ اَلْاِشْرَکُ بِاللّٰہِ وَ الْاَمْنُ مِنْ مَّکْرِ اللّٰہِ وَ الْقُنُوْطُ مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ وَ الْیَاْسُ مِنْ رُّوْحِ اللّٰہِ۔)) [رواہ عبدالرزاق]۔
’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، اُس کے مکر سے بے خوف ہونا، اُس کی رحمت اور اس کے کرم سے نااُمید اور مایوس ہونا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں ۔‘‘
٭٭٭
|