پاس کچھ فائدہ نہیں دے گی ۔سوائے اس کے جسے وہ اجازت دے۔‘‘
مشرکین قدیم ہوں یا جدید؛ شفاعت قہری کے عقیدہ سے وابستہ ہوکر شرک اکبر میں مبتلاہوچکے ہیں ، حالانکہ اﷲتعالیٰ نے قرآن میں کئی مقامات پرقیامت کے دن ایسی کسی بھی قسم کی شفاعت کی نفی کی ہے جس کا مشر کین عقید ہ اور ایمان رکھتے ہیں ۔فرمانِ الٰہی ہے:
﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ وَالْکٰفِرُوْنَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ﴾ [البقرۃ:254]
’’اے ایمان والو!جومال ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ(اﷲکی راہ میں )کرتے رہواس سے پہلے کہ وہ دن آئے، جس میں نہ کوئی تجارت کام آئے گی نہ دوستی اورنہ شفاعت اور کافر ہی ظالم ہیں ۔‘‘
ان مذکورہ بالاآیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شفاعت کی نفی کی گئی ہے وہ شفاعت قہری ہے۔ مشرکین یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اولیاء وصالحین کااﷲتعالیٰ کے ہاں ایسا مقام ہے کہ وہ جس کو چاہیں اللہ کے عذاب سے چھڑا لیں ۔جیسا کہ ہمارے دور کے لوگ بھی کہتے ہیں :
’’خدا کا پکڑا چھڑائے محمد ....محمد کا پکڑا چھڑا کوئی نہیں سکتا۔‘‘
کہتے ہیں : ان کی جاہ سے طلب کی جانے والی سفارش قابل قبول ہوگی۔مگر ارشادِ ربانی ہے:
﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہِ﴾ [البقرۃ: 255]
’’(اﷲ)کی اجازت کے بغیر کون ہے جو اس کے پاس سفارش کرے۔‘‘
ایک اورمقام پرہے کہ سفارش صرف ان لوگوں کی ہوگی جن سے رب راضی ہوگا؛ فرمایا:
﴿وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَہُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ﴾ [الانبیاء28]
’’یہ (فرشتے)کسی کی سفارش نہیں کرتے ۔علاوہ ان کے جن سے اﷲتعالیٰ خوش ہو ۔وہ تو خود ہیبت الٰہی سے لرزاں و ترساں ہیں ۔‘‘
فرمان الٰہی ہے:
﴿قُلْ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا لَہٗ مُلْلکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَ رْضِ ثُمَّ اِ لَیْہِ
|