Maktaba Wahhabi

248 - 377
۲۔۔ امام مالک رحمہ اللہ سے رجوع کا ذکر اما م ابن حبان رحمہ اللہ نے کیا اوراس کو علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ ، علامہ لکھنوی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی تسلیم کیا ہے ۔ امام مالک رحمہ اللہ کا یہ فرمان بجا کہ ہم نے ابن رحمہ اللہ اسحاق کو مدینہ سے نکالا ہے۔مدینہ سے چلے جانے کے بعد بھی انھوں نے کلام کیا ۔ مگر کیا کسی روایت میں اس کی نفی بھی موجود ہے کہ مدینہ طیبہ سے جانے کے بعد پھر کبھی ابن رحمہ اللہ اسحاق مدینہ نہیں آئے؟ امام ابن رحمہ اللہ حبان کے کلام سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ مدینہ طیبہ آئے۔ ان ایام میں ان کی امام مالک رحمہ اللہ سے مصالحت ہوئی اور جب مدینہ سے جانے لگے تو امام مالک رحمہ اللہ نے الوداع کرتے ہوئے پچاس دینار تحفۃ ًپیش کیے۔ لہٰذا مدینہ سے نکالنے اور مصالحت میں کوئی تعارض نہیں۔ چلیے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کا جرح سے رجوع صحیح نہیں لیکن کیا یہ ثابت ہے کہ انھوں نے یہ جرح حدیث کی بنا پر کی تھی۔ ایک قول میں تو ذکر ہے کہ جب امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ آپ کو ابن اسحاق کے کذاب ہونے کاکیسے معلوم ہوا؟ تو انھوں نے فرمایا: مجھے ہشام بن عروہ نے کہا ہے(میزان ۳؍۴۷۱ وغیرہ) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہشام رحمہ اللہ کے قول کی وجہ سے انھوں نے بھی ابن رحمہ اللہ اسحاق کو کذاب کہا حالانکہ ہشام کا کلام بہرنوع باطل اور بے بنیاد ہے۔ جیسا کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس کی تفصیل بیان کر دی ہے۔ دیکھیے توضیح (ج ۱ ص ۲۳۳) لہٰذا جب بنیاد ہی غلط ہے تو پھرجرح کیسی؟ علاوہ ازیں جب امام مالک رحمہ اللہ سے یہ کہا گیا کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق کہتے ہیں کہ مالک کی کتاب لاؤ اس کی کمزوریاں میں واضح کرتا ہوں ، میں اس کا بیطار ہوں تو انھوں نے فرمایا وہ تو دجال من الدجاجلۃ ہے۔ یہ کلام کیا معاصرانہ چشمک کا نتیجہ نہیں؟ جیسا کہ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے جامع بیان العلم (ج ۲ ص ۱۵۶) اور مولانا لکھنوی رحمہ اللہ نے الرفع والتکمیل (ص ۲۵۹،۲۶۰) میں کہا ہے۔ابن خلکان بھی لکھتے ہیں: انما طعن مالک لانہ بلغہ عنہ انہ قال ھاتوا حدیث مالک فانا طبیب بعللہ۔۔الخ (وفیات: ۴/۲۷۷) کہ امام مالک رحمہ اللہ کا کلام اس بنا پر ہے کہ انھیں یہ خبر پہنچی کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق کہتے ہیں ،میں
Flag Counter