Maktaba Wahhabi

25 - 377
چوتھی غلط بیانی اور دھوکا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اسی اثر کے بارے میں بلاجواز سفیان رحمہ اللہ بن حسین کو مورد الزام ٹھہرانے کے لیے جناب ڈیروی صاحب نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’سفیان کی روایت میں ہے کہ ظہر و عصر کی نماز میں مقتدی پہلی دو رکعتوں میں سورہء فاتحہ اور اس کے علاوہ سورت بھی پڑھے اور آخری رکعتوں میں صرف فاتحہ پڑھے۔ جب کہ مصنف ابن ابی شیبہ (ج ۱ ص ۳۲۸ نمبر۳۷۵۳) میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ امام کے پیچھے ظہر و عصر میں ہر رکعت میں سورہء فاتحہ اوراس کے علاوہ دوسری سورت پڑھو، اس اثر میں ظہر وعصر کی ہر چہار رکعات میں سورہء فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کا امر فرمایا ۔ دونوں روایتوں میں تعارض ہو گیا۔‘‘ (ایک نظر :ص ۹۲) جب کہ امر واقع یہ ہے کہ امام ابن ابی شیبہ نے اگر (ص ۳۲۸ نمبر۳۷۵۳) میں یہ روایت ذکر کی تو کیا اسی سند سے اس سے پہلے (ج ۱ ص ۳۲۶ نمبر۳۷۲۶ ۔ ج ۱ ص ۳۷۱ ط ہند) یہ روایت سفیان کی روایت کے موافق نقل نہیں کی؟ جس میں ’’ وفی الاخریین بفاتحۃ الکتاب‘‘ کے الفاظ صراحۃ ً ثابت ہیں کہ آخری دو رکعتوں میں فاتحہ پڑھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہاں عبدالاعلی عن عمہ عن الزھری ہے اور عمہ معمر سے تصحیف ہے۔ جسے مبتدی بھی سمجھ سکتا ہے۔ الحدیث یفسر بعضہ بعضًا کا اصول معلوم و معروف ہے کہ ایک حدیث دوسری کی تفسیر کرتی ہے۔ جب اسی سند سے وہ تفصیل موجود ہے جو سفیان کی روایت میں ہے تو یہ تعارض کیسا؟ مزید برآں مصنف ابن ابی شیبہ کی محولہ روایت عبدالاعلٰی عن معمر عن الزھری کی سند سے ہے ، معمر کی یہ روایت السنن الکبریٰ للبیہقی (ج ۲ ص ۱۶۸) کتاب القراء ۃ (ص ۶۲) المعرفۃ والتاریخ (ج ۱ ص ۴۱۹) میں یزیدبن زریع عن معمر کے واسطہ سے موجود ہے اوراس میں بھی آخری دو رکعتوں میں فاتحہ ہی کا ذکر ہے۔ اس لیے معمر رحمہ اللہ اور سفیان رحمہ اللہ کی روایت میں قطعاً تعارض نہیں۔ یہ کارروائی محض دھوکا اور غلط بیانی پر مبنی ہے، تاکہ اپنے حواریوں کو
Flag Counter