Maktaba Wahhabi

254 - 377
مجہول۔ ڈیروی صاحب نے غالباً اسی خطرہ کے پیش نظر ابوحنیفہ عن الزہری کی سند پر بحث سے گریز کیا کہ کہیں الٹا فرمن المطر و قام تحت المیزاب کی مثال نہ صادق آجائے ۔ آپ تو زہری رحمہ اللہ سے سبرہ رحمہ اللہ نام لینے پر ناراض ہیں۔ یہاں محمد رحمہ اللہ بن عبیدالله کی بھی فکر کریں کہ اس کے تو راوی محمد بن حسن ہیں اور ان کی الآثار میں یہ روایت موجود ہے۔ ابن رحمہ اللہ ابی سکینہ اور ڈیروی صاحب کا دھوکا امام حاکم رحمہ اللہ نے جو سند بیان کی ڈیروی صاحب اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس میں احمد رحمہ اللہ بن ابراہیم کذاب ہے۔ جھوٹی روایتیں بیان کی ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے لسان اور میزان کا حوالہ دیا ہے جب کہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان ( ج ۱ ص ۸۰) میں پہلے احمد رحمہ اللہ بن ابراہیم بن ابی سکینہ کا ذکر کیا اور لکھا کہ یہ امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کرتا ہے ، بعض نے اس کا نام محمد رحمہ اللہ لیا ہے۔ مارأیت لھم فیہ کلام میں نے محدثین کا اس میں کوئی کلام نہیں دیکھا۔ اس کے صرف چھ تراجم بعد(ج ۱ ص ۸۱) احمد بن ابراہیم الحلبی کا ذکر کیا جو علی بن عاصم اور قبیصہ رحمہ اللہ کا شاگرد ہے اور امام ابوحاتم رحمہ اللہ کا قول نقل کیا کہ اس کی باطل احادیث اس کے کذب پر دلالت کرتی ہیں۔ پھر یہ بھی کہہ دیا: ھو ابن ابی سکینۃ تقدم وہ ابن ابی سکینہ ہے جس کا تذکرہ پہلے گزرا ہے۔ غور فرمائیے پہلے (ص ۸۰ ج ۱) پر فرماتے ہیں : میں نے محدثین کا اس میں کوئی کلام نہیں دیکھا، جب کہ دوسرے صفحہ پر اس کو کذاب قرار دے رہے ہیں۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے اس تناقص پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تعجب کا اظہار ان الفاظ سے کیا ہے: فھذا من العجب یقول ما رأیت لھم فیہ کلاماً ثم یجزم بأنہ الذی قال فیہ ابوحاتم ما قال۔ (لسان : ج۱ ص ۱۳۱) اس کے بعد انھوں نے الجرح والتعدیل (ج ۱ ق۱ ،ص ۴۱) سے امام ابو رحمہ اللہ حاتم کا کلام نقل کر کے لکھا ہے: والذی یروی عن مالک اقدم من الذی یروی عن طبقۃ قبیصۃ (فی اللسان قتیبۃ) فلعلھما اثنان واللّٰه اعلم ۔
Flag Counter