Maktaba Wahhabi

281 - 377
موقف بھی واضح ہو جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو وہ بھی ضعیف قرار دیتے ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ کے حوالے سے ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں : ولدینا مزید۔ یا شیخ عبدالقادرجیلانی شیئًا للّٰہ کا وظیفہ اس عنوان کے تحت راقم نے توضیح (ج۱ ص ۴۰۲) میں عرض کیا کہ مولانا صفدر صاحب نے اسے ’’خالص مشرکانہ ورد‘‘ قرار دیا مگر مولانا تھانوی رحمہ اللہ اسے صحیح العقیدہ کے لیے جائز قرار دیتے ہیں ا ور علامہ کشمیری رحمہ اللہ دم کے لیے اس کے نفع اور فائدہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ جس کے جواب میں جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں: مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ سے جسٹس منیر صاحب نے سوال کیا کہ آپ یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ کہنے والے کو مشرک کہتے ہیں ؟ مولانا نے کہا: دراصل بات کا تعلق نیتوں سے ہے ۔ ہم ہر شخص کو جو یہ الفاظ زبان سے نکالتا ہے مشرک نہیں کہیں گے۔ چنانچہ آپ (کو) بھی نہیں کہیں گے حالانکہ آپ نے بھی ایسے الفاظ کہے ہیں۔ بنیادی شے کہنے والے کی نیت ہے نہ کہ الفاظ ۔ ہفت روزہ ’’الاعتصام ‘‘ ۲۲؍جنوری ۱۹۶۵ء (ایک نظر:ص ۳۱۲) مگر ڈیروی صاحب نے مطلق غور نہیں کیا کہ ’’زبان سے یہ الفاظ نکالنا‘‘ اوراس کا ورد وظیفہ کرنا اور دم کے لیے اسے مؤثر قرار دینا دونوں میں کتنا فرق ہے۔ کسی ’’شرک و کفر ‘‘ پر مبنی جملہ کا زبان سے حکایت کرنا بلاشبہ کفر و شرک نہیں ۔ ’’نقل کفر ، کفر نہ باشد ‘‘کا جملہ اہل علم کے ہاں معروف ہے اور اسی معنوں میں حضرت مولانا غزنوی رحمہ اللہ نے اسے شرک نہیں کہا اور جسٹس منیر سے کہا کہ آپ نے بھی تو یہ جملہ کہا ہے مگر آپ کو بھی مشرک نہیں کہیں گے۔مقدمہ کی روئیداد مختصراً ’’داؤد غزنوی‘‘ (ص ۲۶۷) میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مگر اسے موثر سمجھ کر دم کی اجازت دینا اور ا سے نفع کا سبب سمجھنا جیسا کہ علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے کہا ہے بہرنوغ غلط ہے جس کی تاویل مشکل ہے۔ دفع امراض وغیرہ کے لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے اوراد چھوڑ کر ’’خالص مشرکانہ ورد‘‘ کو اختیار کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟ پھر ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم تو اس کو ’’خالص مشرکانہ ورد‘‘ لکھتے ہیں۔ اب اس کو صحیح العقیدہ بطور ’’ورد‘‘ پڑھے تو وہ جائز ہو جائے ، شرک نہ رہے ۔ ہمیں بتلایا جائے کہ یہ
Flag Counter