Maktaba Wahhabi

72 - 377
یہ قول اسی سند سے الکامل (ج ۷ ص ۶) طبعہ ثالثہ میں بھی موجود ہے۔ اب بتلائیے کہ اس انکار کو ہم دھوکا نہ کہیں تو کیا کہیں؟ بائیسواں دھوکا امام ابن معین رحمہ اللہ کی یہ جرح اور تاریخ بغداد کی سند کے راوی خطیب بغدادی نے یہ قول احمد بن عبداللّٰه الانماطی اخبرنا محمد بن مظفر اخبرنا علی بن احمد بن سلیمان کی سند سے نقل کیاہے۔ جس کے بارے میں جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:’’احمد بن عبدالله رافضی۔‘‘ یہ خطیب کا کیسے قابل اعتماد ہو سکتا ہے اور محمد رحمہ اللہ بن مظفر بھی شیعہ ہے۔ بلکہ ابوالولید رحمہ اللہ الباجی نے کہا کہ ابن المظفر کا شیعہ ہونا ظاہر ہے ۔ اثری رافضی اور شیعہ راویوں کی روایت پیش کرکے امام صاحب پر جرح کرتا ہے، کچھ شرم و حیا سے کام لینا چاہیے۔ملخصاً (ایک نظر: ص ۳۰۹) تعجب ہے کہ خطیب تو کہیں :’’ کتبت عنہ وکان سماعہ صحیحا‘‘ میں نے اس کی روایت لکھی ، اس کا سماع صحیح ہے۔ اگر وہ خطیب کے ہاں قابل اعتماد نہیں تواس کی روایت لکھنے کے کیا معنی ؟ یہ تو تبھی ہے جب انھوں نے احمد بن عبدالله پر اعتماد کیا اور اس کے سماع کو صحیح قرار دیا، بلکہ دکتور اکرم ضیاء العمری حفظہ اللہ نے موارد الخطیب البغدادی فی تاریخ بغداد (ص ۴۹۸ )میں ذکر کیا ہے کہ خطیب بغدادی نے احمد بن عبدالله کے واسطہ سے پینسٹھ (۶۵) مقامات پر ائمہ کرام کے اقوال نقل کیے ہیں۔ غور فرمائیے جس سے ۶۵ مقامات پر استفادہ کیا ہے وہ قابل اعتبار ہے یا ناقابل اعتبار؟رہا اس کے رافضی ہونے کا مسئلہ تو خود خطیب نے اسے ’’ ذکر لی‘‘ سے ذکر کیا کہ مجھے ذکر کیا گیا کہ وہ رافضی ہے۔ یہ ذکر کرنے والا کون ہے ؟ ظاہر ہے کہ وہ مجہول ہے۔ مگراس کے باوجود خطیب اس سے روایت لیتے ہیں۔ تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خطیب نے اس قول پر اعتماد نہیں کیا مگر شیخ الحدیث صاحب کی گنگا ہی الٹی بہتی ہے کہ ’’رافضی خطیب کا قابل اعتماد کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ خدا دے تو دے مگر الٹی سمجھ کسی کو نہ دے
Flag Counter