Maktaba Wahhabi

352 - 377
اکاسی واں دھوکا عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہما کا اثر راقم نے توضیح (ج ۲ ص ۱۳۱) میں کتاب القراء ۃ ( ص ۶۹،۸۶) کے حوالے سے حضرت عبدالله رحمہ اللہ بن عمرو کا ایک اثر نقل کیا اور عرض کیا کہ یہ اثر سند کے اعتبار سے حسن سے کسی صورت کم نہیں ۔ مولانا سرفراز صفدر صاحب نے اس پر عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند پر اعتراض کیا جس کا جواب توضیح الکلام میں عرض کر دیا گیا مگر اب ان کے شاگرد رشید لکھتے ہیں کہ مولف احسن الکلام کا صرف عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے طریق پر کلام کرنا اور باقی سند کے راویوں پر جرح نہ کرنے سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ اس اثر کی سند حسن ہے ۔ یہ اثری صاحب کادجل و فریب ہے۔ اس کی سند کا راوی ابوالطیب ہے۔ عبدالله الجرجانی ہے،ابوالصلت الھروی ہے وغیرہ (ایک نظر: ص ۵۴،۵۵) مگر ڈیروی صاحب کا دجل و فریب دیکھیے کہ توضیح میں بلکہ احسن الکلام (ج ۱ ص ۱۶۷) میں بھی یہ اثر کتاب القراء ۃ کے (ص ۶۹،۸۶ )سے نقل کیا گیا اور ڈیروی صاحب نے بھی کتاب القراء ۃ کے دونوں صفحات کا حوالہ دیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ (ص ۶۹ )پر صحابہ کے عمومی عمل کا ذکر ہے جب کہ (ص ۸۶ )میں ان کے اپنے عمل کا ذکر ہے۔ ڈیروی صاحب نے (ص ۶۹ )پر بیان کر دہ اثر پر تو تنقید کرکے دل کی بھڑاس نکال لی۔ مگر (ص ۸۶ )پر جو اثر اور اس کی جو سند ہے اس سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیں۔ ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم نے دو علیحدہ علیحدہ سندوں کے اعتبارسے خاموشی اختیار کی ورنہ وہ بھی شاگرد رشید کی طرح خاموش نہ رہتے اور اسی اعتبار سے راقم نے ا س کو حسن قرار دیا۔ اب انصاف شرط ہے کہ مولانا صفدر صاحب کی خاموشی کیا بے معنی ہے ؟ یا ڈیروی صاحب ہی ایک سند پر نقد کرکے دھوکا دے رہے ہیں؟ دوسری سند یوں ہے: اخبرنا الامام ابوعثمان رضی اللّٰه عنہ انا ابوطاھر محمد
Flag Counter