Maktaba Wahhabi

76 - 377
سے امام ابن رحمہ اللہ عدی نے اس قول کی سند شروع کی اور سطرنمبر۷ پر امام نضر رحمہ اللہ بن شمیل کا یہ قول ذکر کیا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ متروک الحدیث لیس بثقۃ تھے ۔ اسی طرح الکامل طبعہ ثالثہ (ج ۶ ص ۷) میں بھی یہ قول مذکور ہے۔ بتلائیے جو شیخ الحدیث صاحب اتنی دیدہ وری سے دھوکا دیں اور نصف النہار کی طرح واضح حوالہ کا بھی انکار کر دیں۔ وہ باقی مباحث میں کس حد تک سچے ہوں گے۔ ان فی ذٰلک لعبرۃ۔ چوبیسواں دھوکا حضرت زید رحمہ اللہ بن اسلم کا تفسیری قول امام بیہقی رحمہ اللہ نے حضرت زید رحمہ اللہ بن اسلم کا ایک تفسیری قول ذکر کیا ہے جس پر مولانا صفدر صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ یہ روایۃ صحیح نہیں کیونکہ اس کی سند میں عبدالعزیز رحمہ اللہ بن محمد ہے ، جس کی وضاحت راقم نے توضیح الکلام (ج ۱ ص ۱۱۷،۱۱۸) میں کی ہے ۔اس کاتو کوئی جواب مولانا صفدر صاحب کے شاگرد رشید سے بن نہ سکا ، البتہ یہ کہہ کر مطمئن ہو گئے کہ ’’ہمارے شیخ مکرم نے صرف عبدالعزیز پر جرح کی لیکن اس کی سند میں ابوعمرو الحرشی مجہول ہے اور الفضل بن محمد الشعرانی کے متعلق علامہ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں کہ حاکم نے ثقہ کہا اور قتبانی (بلکہ قبانی )نے کذاب کہا اور محدث ابن الاخرم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’سچا ہے لیکن شیعت میں غالی ہے۔‘‘ (ایک نظر : ص ۲۷۳ ،۲۷۴) عبدالعزیز رحمہ اللہ بن محمد پر جرح کیا ہے؟ اس بارے میں ڈیروی صاحب خاموش ہیں۔ ہمارے نقد کا کوئی جواب دینے سے تووہ قاصر رہے البتہ اپنی بے سمجھی میں استاد مکرم سے آگے بڑھ جانے کی یہ کوشش کی کہ اس میں ابوعمرو رحمہ اللہ الحرشی مجہول ہے۔ حالانکہ وہ مشہور محدث حافظ حدیث احمد بن محمدبن احمد النیساپوری ہیں۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے انھیں ’’ الامام المحدث العدل‘‘ کے القاب سے یاد کیا ہے۔(السیر: ج ۱۴ ص ۴۹۲) نیز دیکھیے تذکرۃ الحفاظ (ج ۳ ص ۷۹۸)، العبر (ج ۲ ص ۱۶۹) وغیرہ۔ مگر ایسا معروف محدث بھی شیخ الحدیث صاحب کے ہاں مجہول ہے۔ سبحان اللّٰه !
Flag Counter