Maktaba Wahhabi

252 - 377
یہ بات بھی انھوں نے کہی ہے : طعن سعد فی نسب مالک اعظم اثما مع ما یختص بہ من وجوب الحد الذی یمنع من قبول الشھادۃ۔ کہ سعد بن ابراہیم کا امام مالک رحمہ اللہ کے نسب میں طعن کرنا ایسا بڑا گناہ ہے کہ جس سے حد واجب ہوتی ہے اوراس کی شہادت مقبول نہیں رہتی۔ غور فرمائیے کہ اس جرم کی وجہ سے سعد رحمہ اللہ سے روایت نہ لی بلکہ اس سے تو ابن رحمہ اللہ اسحاق کو مدینہ سے نکال دینے کا پس منظر بھی مخفی نہیں رہتا۔ ہماری اس وضاحت سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا ابن رحمہ اللہ اسحاق پر کلام حدیث کی بنا پر نہیں تھا بلکہ اس کا سبب باہمی معاصرانہ منافرت تھی۔ ان کے مابین اسی دوری کی بنا پر ہی امام مالک رحمہ اللہ ، ابن رحمہ اللہ اسحاق کو صحیح طو رپر پہچان نہ سکے جیسا کہ امام علی رحمہ اللہ بن مدینی نے کہا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ راقم نے توضیح (ج ۲ ص ۶۵۴) میں امام رحمہ اللہ حاکم کی معرفۃ علوم الحدیث (ص ۱۵۰) کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حافظ ابوعلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اس میں ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے تصحیف ہوئی ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ سے ان کے تلامذہ اسے بالاتفاق الربیع بن سبرۃ عن ابیہ کی سند سے ذکر کرتے ہیں۔ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے امام زہری رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہوئے سبرۃ بن ربیع عن ابیہ کہا ہے جبکہ امام زہری رحمہ اللہ کے باقی تلامذہ اسے ’’ربیع بن سبرہ عن ابیہ‘‘ سے روایت کرتے ہیں۔ حافظ ابوعلی پر حملہ اور الزام ڈیروی صاحب سے اس کا کوئی سنجیدہ جواب تو نہ بن سکا الٹا اپنا غصہ امام ابوعلی رحمہ اللہ پر نکالنا شروع کر دیا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:’’ یہ نظریہ ابوعلی رحمہ اللہ کا ظالمانہ ہے۔ انھوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے نیچے کے راویوں پر نظر نہیں کی ۔ ابوعلی رحمہ اللہ کا استاد یحییٰ بن علی مجہول ہے۔ پھر یحییٰ کا استاد محمد رحمہ اللہ بن ابراہیم کذاب ہے ۔ اس نے جھوٹی روایتیں بیان کی ہیں (لسان : ۱؍۱۳۳، میزان :
Flag Counter