Maktaba Wahhabi

94 - 377
توقع ہے کہ وہ اسے صحیح یا کم ا ز کم حسن تسلیم کریں گے (توضیح: ج ۱ ص ۲۱۲) نیز عرض کیا کہ ’’کیا فریق ثانی اس اعتراف اور اظہار کے بعد اس حدیث کو صحیح یا حسن تسلیم کرتا ہے۔‘‘ (توضیح: ج ۱ ص ۳۳۸) ہم تو حنفی علماء سے ان کے اپنے اصول کی پاسداری کی توقع رکھتے ہوئے یہ سب کچھ عرض کر رہے ہیں مگر ڈیروی صاحب ہیں کہ وہ الٹا فرماتے ہیں کہ ’’جہاں ان کے حق میں روایت آجائے تو پھر ابن حجر رحمہ اللہ کا سکوت معتبر ہے۔‘‘ سخن فہمی عالم بالا معلوم شد جناب من! تضاد کی فکر چھوڑیے، بتلائیے! آپ کے ہاں جب یہ اصول مسلّم ہے تو ان روایات کی تصحیح یا تحسین قبول ہے یا نہیں؟ قبو ل نہیں تو یہ تضاد بیانی نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور اگر قبول ہے تو اپنے شیخ مکرم سے التجاء کیجیے کہ حضرت اس کے انکار کی ضد اچھی نہیں۔ آپ جو بھی فیصلہ فرمائیں ہمیں قبول ہے۔ چونتیسواں دھوکا معلق روایت میں امام بخاری رحمہ اللہ کا اسلوب راقم نے توضیح الکلام (ج ۲ ص ۵۷۶) میں باحوالہ ذکر کیا ہے کہ اما م بخاری رحمہ اللہ کبھی کبھی بالجزم ایسی معلق روایت بھی لاتے ہیں جو انقطاع کی بنا پر ضعیف ہوتی ہے۔ بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ اس کو قاعدہ کلیہ سمجھ کر ڈیروی صاحب نے پہلے تو یہ اعتراض کیا کہ ’’ یہ تقریر اس وقت ہے جب ایسی روایت ان کے خلاف ہو ،لیکن اگر کوئی روایت مدلس کی معلق بالجزم اور مولانا موصوف کے حق میں ہو تو وہ صحیح بن جائے۔‘‘ (ایک نظر: ص ۲۱۴) حالانکہ تعلیق جازم کی من جملہ انواع وا قسام میں ایک قسم یہ ہے ۔ اس لیے ’’کبھی کبھی‘‘ کے الفاظ سے اس طرف اشارہ بھی کیا گیا مگر ڈیروی صاحب نے اسے ملحوظ نہ رکھا۔ عمرو بن شعیب رحمہ اللہ او رامام بخاری رحمہ اللہ پھراس میں تضاد ثابت کرنے کے لیے توضیح (ج ۱ ص ۴۴۹) سے یہ حوالہ پیش کر دیا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی روایت کو بالجزم پیش کیا
Flag Counter