Maktaba Wahhabi

294 - 377
زمانہ ، رأسا فی ھذا الشأن قل ان تری العیون مثلہ مع الثقۃ والبراعۃ‘‘ کے بلند القاب سے یاد کیا ہے۔ صحیح بخاری کے وہ راوی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ ، امام علی رحمہ اللہ بن مدینی ، امام احمد رحمہ اللہ ،ابوحاتم رحمہ اللہ ، العجلی رحمہ اللہ ،ابن عدی رحمہ اللہ ، ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہ نے ثقہ و صدوق کہا اور وہ اس کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ غور فرمائیے اس بہت بڑی کمزوری کے باوجود کبار ائمہ حدیث اس کی توثیق کرتے ہیں بلکہ دفاع کرتے ہیں۔ ہماری اس وضاحت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ محمد بن سلیمان ثقہ اور قابل اعتماد ہیں ۔ انھیں ’’غیر ثقہ‘‘ کہنا ڈیروی صاحب کا جھوٹ ہے ۔ پہلے طبرانی میں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت کی روایت پر بحث کے دوران میں ہم بحوالہ نقل کرآئے ہیں کہ مولانا ظفر احمد تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس راوی کو میزا ن میں ضعیف قرار نہیں دیا گیا اس کو ثقہ کہنا درست ہے۔ میزان کے ساتھ آپ لسان المیزان کو بھی شامل کر لیجیے۔ مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے اس اصول کی روشنی میں بھی محمد بن سلیمان کو غیر ثقہ اور محمد بن یحییٰ الصفار کو مجہول بلکہ کذاب و دجال کہنا بالکل غلط اور بے بنیاد دعویٰ ہے۔ علاوہ ازیں علامہ علی قاری حنفی فرماتے ہیں:’’ والناس فی احوالھم علی الصلاح والعدالۃ حتی یتبین منھم ما یوجب الجرح‘‘(انہاء السکن: ص ۵۲) کہ لوگوں کے حالات ، صلاح و عدالت پر ہیں تاآنکہ کوئی چیز ایسی ثابت ہو جو جرح کا باعث ہو۔ اب یہاں اس کی تصحیح سند اور بالخصوص محمد رحمہ اللہ بن سلیمان بن فارس سے امام ابن حبان کا اپنی صحیح میں روایت لینا اور امام حاکم رحمہ اللہ کا اس کی سند کو علی شرط شیخین کہنے کے بعد بھی انھیں مجہول یا کذاب قرار دینا ہٹ دھرمی نہیں تو اور کیا ہے؟ ڈیروی صاحب کی ایک اور تک بندی جب یہ بات ثابت ہوئی کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کا اس روایت کی سند کو صحیح کہنا ا س کے راویوں کی توثیق کی دلیل ہے۔ انھیں بلا دلیل مجہول یا غیر ثقہ قرار دینا صرف ڈیروی صاحب کی نفس پرستی کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے اپنے دفاع کے لیے یہ حیلہ بھی بنایا کہ امام
Flag Counter