Maktaba Wahhabi

388 - 377
تواس قول کو بڑے وثوق سے لا بد ان تکون ثابتۃ ثابت شدہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں اور اس حوالے سے پیداشدہ اعتراضات کا شافی جواب بھی انھوں نے دیا ہے۔ مگر میں نہ مانوں کی ضد کا کوئی علاج نہیں۔ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ کی بے انصافی علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ کی بے انصافی نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ یہاں اس بحث میں امام محمد رحمہ اللہ کے اس قول کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ’’ لیست ظاھر الروایۃ عنہ ‘‘ کہ یہ امام محمد رحمہ اللہ کا قول ظاہر الروایۃمیں نہیں۔ سوال یہ ہے کہ فرض نماز کی آخری دو رکعتوں میں قراء ت کے بارے میں ظاہر الروایۃ کیا ؟ امام محمد رحمہ اللہ کی المبسوط (ج ۱ ص ۱۹) اور الموطا (ص ۱۰۱) میں فیصلہ کیا ہے؟یہی کہ آخری رکعتوں میں قراء ت زیادہ سے زیادہ مستحب ہے اور غیر ظاہر الروایہ میں واجب مگر اس مسئلہ میں علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ غیر ظاہر الروایہ پر عمل ہی ’’احوط‘‘ قرار دیتے ہیں۔(فتح القدیر:۱؍۳۲۳) جس کی ضروری تفصیل توضیح الکلام حصہ ثانی میں گیارہویں حدیث کے تحت بیان ہو چکی ہے۔ یہاں غیر ظاہر الروایہ کو ترجیح اور اس کو احوط قرار دینا چہ معنی دارد؟ لیکن فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ میں یہی غیر ظاہر الروایہ مردود اور غیر احوط حالانکہ علامہ علی قاری رحمہ اللہ نے ان کے اس موقف کی تردید کی ہے اور روایات کی تطبیق میں اس کو ’’اظہر‘‘ زیادہ ظاہر قرار دیا اور فرمایا کہ احتیاط تو اختلاف سے بچنے میں ہے اور مکروہ کا ارتکاب فساد سے اولیٰ ہے۔ فاتحہ نہ پڑھنے میں فساد زیادہ ہے نسبتاً فاتحہ پڑھنے کے، جیسا کہ توضیح الکلام میں سخنہائے گفتنی کے تحت بحوالہ اس کا ذکر ہے۔ فتویٰ اور ظاہر الروایہ فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ میں ظاہر الروایہ پر اس قدر اصرار اور اس سے عدول ناجائز، مگر کتنے مسائل ہیں جن میں ظاہر الروایہ سے ’’بغاوت‘‘ کی گئی اور شاذ اور غیر ظاہر الروایہ کو اختیار کیا گیا بلکہ احوال او رظروف کی بنا پر ائمہ ثلاثہ کے اقوال کے برعکس فتویٰ صادر کیا گیا ۔
Flag Counter