Maktaba Wahhabi

203 - 377
ہے؟جارحین کے قول کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ اس لیے ڈیروی صاحب خاطرجمع رکھیں ۔ امام ابوزرعہ رحمہ اللہ نے بھی ابن رحمہ اللہ اسحاق کا دفاع کیا ہے اور اسے صدوق قرار دیا ہے۔ چوہترواں دھوکا امام ابوزرعہ رحمہ اللہ دمشقی اور ابن رحمہ اللہ اسحاق راقم نے امام ابوزرعہ رحمہ اللہ دمشقی کے حوالے سے طبع اول میں نقل کیا تھا کہ محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ابن اسحاق صدوق ہے(توضیح: ۱؍۲۷۴) یہاں سے کبار کا لفظ ساقط ہو گیا۔ یعنی ’’کبار محدثین‘‘ ہے صرف محدثین نہیں۔ جیسا کہ اس سے پہلے توضیح (۱؍۲۲۵) میں ان کا مکمل کلام موجود ہے۔ ہمارے مہربان فرماتے ہیں:’’یہ محض جھوٹ ہے۔ بڑے بڑے متفق ہیں نہ کہ تمام محدثین کرام متفق ہیں۔‘‘ (ایک نظر: ص ۲۸۳،۲۸۴) ہم نے اصل حقیقت واضح کر دی ۔ کیا ڈیروی صاحب ’’بڑے بڑے محدثین کا اتفاق تسلیم کرنے کے لیے آمادہ ہیں؟ ہم نے ابن رحمہ اللہ اسحاق کی توثیق پر اتفاق کا قطعاً دعویٰ نہیں کیا بلکہ توضیح (ج۱ ص ۲۲۵) میں ’’ابن اسحاق اور جمہور ائمہ حدیث‘‘ کے عنوان کے تحت سب سے پہلے امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کا ہی قول نقل کیا کہ بڑے بڑے اہل علم اس سے روایت لینے میں متفق ہیں۔ اہل حدیث نے ان کا پتا لگایا تواسے صدوق پایا۔‘‘ ڈیروی صاحب اس حقیقت کو ملحوظ رکھتے تو یقینا اس الزام میں عجلت نہ کرتے۔ امام ابوزرعہ رحمہ اللہ دمشقی کے قول کی تحقیق جناب ڈیروی صاحب فرماتے ہیں : امام ابوزرعہ کا یہ قول تاریخ بغداد (ج ۱ص ۲۲۴) میں ہے ، جس کی سند میں محمد بن عثمان القاضی کذاب ہے(تاریخ بغداد: ۳؍۵۱،۵۲) دوسری سند میں خطیب کا استاد ابو محمدعبدالرحمن بن عثمان الدمشقی نے اپنا خط خطیب کو بھیجا تھا۔ خطیب کا اپنے استاد سے سماع ہے یا نہیں ۔ پھر اس کے استاد ابوالمیمون البجلی سے سماع ہے یا نہیں اس کے حالات نامعلوم ہیں۔ لہٰذا سند کے لحاظ سے یہ روایت مخدوش ہے۔(ایک نظر: ص ۲۸۴)
Flag Counter