Maktaba Wahhabi

92 - 377
بیان کرتے ہیں اوراسی کو امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ نے محفوظ کہا ہے اور معمر رحمہ اللہ کی روایت کو وہم قرار دیا ہے۔ اور راقم نے بھی یہ مثال معمر رحمہ اللہ کے اوہام کے ضمن میں بیان کی ہے۔ یوں نہیں کہ امام زہری رحمہ اللہ کی مراسیل کو صحیح قرار دے دیا گیا۔ تعجب ہے کہ شیخ الحدیث صاحب اس سیدھی سی بات کو بھی سمجھ نہیں سکے۔ مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ موصوف لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب ھل یعفی عن الذمی اذا سحر (ج ۱ص۴۵۰) کے تحت زہری رحمہ اللہ کی ایک بلاغ یعنی مرسل کو قبول کیا ہے۔ (ایک نظر: ص ۲۴۳) امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’بلاغ‘‘ کو ’’ وقال ابن وھب اخبرنی یونس عن ابن شھاب‘‘ سے روایت کیا ہے۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ تحدیث کے بغیر ’’ وقال لی یا وقال فلان‘‘ سے جب روایت کرتے ہیں تو وہ ایسا کبھی موقوف قول کی بنا پر اور کبھی سند میں خرابی کی بنا پر کرتے ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، بلکہ ڈیروی صاحب تو لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ قال لنا یا قال لی سے جو روایت بیان کرتے ہیں اس کی سند میں خرابی ہوتی ہے(ایک نظر: ص ۸۵) مگر غور فرمایا آپ نے کہ یہاں ’’ قال ابن وھب‘‘سے زہری رحمہ اللہ کی بلاغ یا مرسل کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے قبول کیا ہے۔ مرسل ہونے کی وجہ سے۔ نیز اس کے متن میں گڑ بڑ ہونے کے سبب سے ہی توامام بخاری رحمہ اللہ اسے ’’ قال لی‘‘ کہہ رہے ہیں اور بالجزم اس پر کوئی حکم نہیں لگا رہے۔ متن میں گڑ بڑ کیا ہے، اس کے لیے فتح الباری (ج ۶ ص ۲۷۷) دیکھیے اور اسی لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ’’ لم یجزم المصنف بالحکم‘‘ اس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے بالجزم کوئی حکم نہیں لگایا۔ مگر شیخ الحدیث صاحب فرماتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے قبول کیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔!سچ فرمایا ہے علمائے کرام نے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے تراجم و مقاصد کو سمجھنا آسان نہیں۔ تینتیسواں دھوکا فتح الباری میں حافظ کا سکوت اور ڈیروی صاحب حنفی اصول یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اگر فتح الباری بلکہ التلخیص میں کوئی حدیث ذکر
Flag Counter