Maktaba Wahhabi

386 - 377
حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے، جیسا کہ ہم اس کی وضاحت کر چکے ہیں ۔اس لیے امام بیہقی رحمہ اللہ پر ایسی روایات کی بنا پر اس قسم کے اعتراضات بھی درست نہیں۔ نواسی واں دھوکا امام محمد رحمہ اللہ کا مسلک فقہائے اربعہ کے مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے ہم نے توضیح الکلام جلد اول میں عرض کیا ہے کہ ائمہ احناف کی طرف تین مسلک منسوب ہیں۔ا ن میں تیسرا قول یہ ہے کہ سری نمازوں میں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا مستحسن ہے ۔ اور امام محمد رحمہ اللہ کا ایک قول یہی ہے بلکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی یہ قول منقول ہے۔ جناب ڈیروی صاحب کو یہ حقیقت کب گوارہ تھی۔ اس کے رد عمل میں انھوں نے جو جلی کٹی مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ صاحب کو سنائی اس کی زد سے علامہ عینی رحمہ اللہ ، علامہ کشمیری رحمہ اللہ ، مولانا بنوری رحمہ اللہ ، مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ بھی نہیں بچ پائے۔ ان کی اس تلخی ترشی کی ایک بڑی بنیاد اس پر ہے کہ اس قول کے ناقل ’’علامہ مختار بن محمود نجم الدین الزاہدی حنفی ‘‘م ۶۵۸ھ ہیں اور وہ معتزلی ہے اور اس کی کتابیں قابل عمل نہیں۔ (ایک نظر: ۳۷،۳۸) مگر یہ ڈیروی صاحب کا حسب سابق دھوکا ہے۔ علامہ الزاہدی رحمہ اللہ کا قصور یہ ہے کہ وہ ناقل ہیں۔ انھوں نے یہ قول خود بلاحوالہ ذکر نہیں کیا بلکہ علامہ البزدوی رحمہ اللہ کی شرح الکافی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ جیسا کہ مولانا لکھنوی رحمہ اللہ نے امام الکلام (ص ۳۹) اور علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے فصل الخطاب (ص ۲۹۸) میں صاف صاف لکھا ہے۔ علامہ الزاہدی رحمہ اللہ اگر بے پر کی اڑاتے تو ان کی بات رد کی جا سکتی تھی۔ مگر یہاں انھوں نے جو نقل کیا ’’شرح الکافی‘‘ کے حوالے سے کیا اور وہ یہ نقل کرنے میں منفرد بھی نہیں ہیں۔ چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: و فی الذخیرۃ لو قرأ المقتدی خلف الامام فی الصلاۃ لا یجب فیھا اختلف المشایخ فیہ فقال ابوحفص و ھو من بعض مشایخنا لا یکرہ فی قول محمد۔الخ (البنایۃ: ۲/۳۱۹)
Flag Counter