Maktaba Wahhabi

390 - 377
اوراسے ترجیح دی ہے تو ایسا انھوں نے ظاہر روایہ کے جھنجٹ سے ہٹ کر قوت دلیل کی بنا پر کیا ہے جیسا کہ فتویٰ کا ایک اسلوب یہ بھی ہے۔ اور امام محمد رحمہ اللہ کے اسی ’’شاذ‘‘ قول کو ترجیح دی ہے تو وہ بھی اس مسئلہ میں دلائل کی پختگی اور روایۃ ًاور درایۃً صحیح ہونے کی بنا پر جیسا کہ مولانا لکھنوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔ انہ ان کان ضعیفاً لکنہ قوی درایۃ ۔(التعلیق الممجد : ص ۹۴) کہ یہ قول گو روا یۃ ً ضعیف ہے مگر درایۃً قوی ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان سری میں فاتحہ خلف الامام کا قول امام محمد رحمہ اللہ ہی کا نہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بھی یہ ایک قول ہے۔ جیساکہ الزاہدی نے المجتبیٰ میں ذکر کیا ہے اور اس نقل میں علامہ الزاہدی منفردنہیں۔ چنانچہ علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے ’’مقدمۃ الغزنویۃ‘‘-- جو فقہ حنفی کی معتبر اور شیخ احمد بن محمد بن محمود الغزنوی کی معروف کتاب ہے ، کے حوالہ سے لکھا ہے: واختار بعض اصحابنا القراء ۃ للمقتدی خلف الامام فی صـلاۃ المخافـتۃ وھو قول ابی حنیفۃ الاول۔(فصل الخطاب : ص ۲۹۸) ’’کہ ہمارے بعض اصحاب نے سری میں مقتدی کے لیے امام کے پیچھے پڑھنے کو اختیار کیا ہے اور یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا پہلا قول ہے۔ ‘‘جس سے یہ بات تو بہرحال ثابت ہوئی کہ اس حوالہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بھی ایک قول منقول ۔ علامہ الغزنوی رحمہ اللہ نے اسے پہلا قول قرار دیا۔ علامہ الزاہدی رحمہ اللہ نے شرح الکافی للبزدوی سے مطلق طور پر اسے نقل کیا۔ اور علامہ شعرانی رحمہ اللہ نے اس قول کو آخری قول قرار دیا۔ غالباً اسی بنا پر علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے بڑے وثوق سے فرمایا ہے: واما الامام ابوحنیفۃ رحمہ اللّٰه تعالی فالمحقق عندی من مذھبہ انہ حجر عن القراء ۃ فی الجھریۃ واجازبھا فی السریۃ۔ الخ (فیض الباری: ج ۲ ص ۲۷۲)
Flag Counter