Maktaba Wahhabi

229 - 377
نہیں۔ ’’صحابہ و تابعین کی ایک جماعت ایسی ہے جن سے صرف ایک ہی روایت مروی ہے۔ حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے التدریب میں النوع الحادی والتسعون ( ۹۱) یہی ذکر کی ہے’’ مَنْ لم یرو الا حدیثا واحدا‘‘ تو کیا ایسے تمام راویوں کو بھی ضعیف کہا جائے گا؟‘‘ (توضیح : ج ۱ ص ۳۵۹)۔ ہرگز نہیں الا یہ کہ ضعف ثابت ہو۔ محض ایک ہی حدیث روایت کرنا باعث ضعف نہیں۔ ڈیروی صاحب کا عجیب خبط ڈیروی صاحب اس اصولی بحث کا تو کوئی جواب نہ دے سکے۔ اس کے برعکس انھوں نے یہ لکھ دیا کہ ’’حافظ سیوطی تدریب الراوی میں نافع بن محمود رحمہ اللہ کی صرف ایک روایت ذکر کرتے ہیں۔‘‘ (ایک نظر: ص ۱۰۴) حالانکہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے نافع بن محمود کی کوئی روایت تدریب الراوی میں ذکر نہیں کی۔ یہ بے چارے غصہ میں اس قدر مخبوط الحواس ہوئے کہ بات کو سمجھ ہی نہ سکے۔ بات تو علوم الحدیث کی ایک نوع و قسم کی تھی کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ۹۱ ویں یہ ذکر کی ہے کہ :’’ من لم یرو الا حدیثا واحداً‘‘ جس سے ایک ہی حدیث مروی ہو مگر انھوں نے اسے یہ بنا دیا کہ علامہ سیوطی نافع بن محمود رحمہ اللہ کی صرف ایک روایت ذکر کرتے ہیں:’’ انا للّٰه و انا الیہ راجعون‘‘۔ پچھترواں دھوکا راقم نے عرض کیا تھا کہ ’’ہمارا استدلال صرف ابن رحمہ اللہ اسحاق کی روایت سے ہی نہیں۔ ‘‘ (توضیح : ج ۱ ص ۲۹۶) جس کے بارے میں جناب ڈیروی صاحب فرماتے ہیں:’’ حالانکہ مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ابن رحمہ اللہ اسحاق کی حدیث ان تمام دلائل میں سے زیادہ قوی اور صریح روایت ہے۔‘‘ (امام الکلام : ص ۲۵۵ ، ایک نظر: ص ۳۰۲) کیا مولانا لکھنوی کے اس قول سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کے علاوہ اور کوئی ’’قوی اور صریح روایت‘‘ نہیں؟ حالانکہ انھوں نے امام الکلام (ص ۲۵۷) میں رجل من اصحاب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کی حدیث کا حسن ہونا نقل کیا ہے اوراس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
Flag Counter