Maktaba Wahhabi

184 - 377
سے احناف کے نزدیک اس کی حجیت ختم ہوجاتی ہے؟ حالانکہ انہاء السکن (ص ۴۱) میں کہا گیا ہے کہ ہمارے نزدیک قرون ثلاثہ کی مراسیل ہی نہیں بلکہ ان کی بلاغات بھی مقبول ہیں۔ تو پھر اسے معضل کہہ کر جان چھڑانا سراسر دھوکانہیں تو اور کیا ہے ؟ اشعث رحمہ اللہ بن سوار الکندی اشعث رحمہ اللہ بن سوار الکندی کو بلاشبہ جمہور ائمہ جرح و تعدیل نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ڈیروی صاحب اس کا تقابل مختار بن ابی لیلیٰ اوراس کے باپ سے کرکے دیکھ لیں جو اس کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ امام کے پیچھے قراء ت فطرت کے خلاف ہے۔ جسے محدثین نے بے اصل قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ملحوظ رہے کہ علامہ طحاوی رحمہ اللہ نے شرح معانی الآثار (ج ۱ ص ۲۷۲) میں الاشعث رحمہ اللہ کی سند سے حضرت حسن رحمہ اللہ کے اثر سے استدلال کیا ہے کہ صف میں ملنے سے پہلے رکوع کرنا مکروہ ہے۔ علاوہ ازیں سنن دارقطنی (ج۱ ص ۲۲۰) میں نفاس کے بارے میں حضرت عثمان رحمہ اللہ بن ابی العاص کا قول ’’ ولا تجاوز ن الاربعین‘‘ کے الفاظ سے منقول ہے، جس میں حنفی مسلک کہ نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے کی تائید ہوتی ہے۔ یہ اثر اشعث رحمہ اللہ بن سوار سے مروی ہے اور مولانا ظفر احمد عثمانی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں: ’’ ورواہ الدارقطنی ایضاً عن الاشعث عن الحسن عن عثمان و فیہ : ولا تجاوزن الاربعین و سندہ صحیح ۔‘‘ (اعلاء السنن : ج ۱ ص ۲۵۰) بلکہ حاشیہ میں بھی اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ انصاف شرط ہے کہ مسلک کی حمایت میں اشعث رحمہ اللہ کے بیان کردہ اثر کی سند تو صحیح ہو اور مسلک کی مخالفت میں ضعیف اور ناقابل اعتبار۔ تلک اذا قسمۃ ضیزی ۔ یہی نہیں مولانا ظفر احمد رحمہ اللہ عثمانی نے واذا قرئ القراٰن کاشان نزول امام زہری رحمہ اللہ سے نقل کیا جسے امام طبرانی نے حفص عن اشعث عن الزھری کی سند سے بیان کیا ہے
Flag Counter