Maktaba Wahhabi

380 - 377
بن حذافہ نے جہراً قراء ت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا ابن حذافۃ لا تسمعنی واسمع اللہ اے حذیفہ! کے بیٹے مجھے نہ سناؤ، اپنے الله کو سناؤ۔ جناب ڈیروی صاحب کی گل کاری دیکھیے ، فرماتے ہیں: امام بیہقی رحمہ اللہ کی یہ سینہ زوری کی بدترین مثال ہے۔ انھوں نے سینہ زوری اور تک بندی سے زیادہ کام لیا ہے۔ اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ انھوں نے نوافل میں ایسا کیا ہو ۔ جماعت میں نہیں۔ اس کی سند میں یحییٰ بن جعفر ’’متکلم فیہ ‘‘ ہے۔ اور نعمان بن راشد بھی ہے۔ نیز زہری رحمہ اللہ اس میں مدلس ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔ ملخصاً (ایک نظر: ص ۱۳۹،۱۴۰) اسی نوعیت کے اعتراضات مولانا صفدر صاحب نے احسن الکلام (ج ۲ ص ۱۱۷) میں بھی کیے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ڈیروی صاحب نے جو اسے سنن و نوافل پر محمول کیا ہے یہ بھی توایک احتمال ہے۔ اسی پر ضد کرنا اوراسی کو بلادلیل صحیح سمجھنا کیا سینہ زور ی نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عبدالله بن حذافہ رضی اللہ عنہ سے نماز میں اونچی آواز میں قراء ت سننا اور فرمانا کہ مجھے نہ سناؤ اس میں زیادہ احتمال ہے کہ یہ نماز باجماعت تھی اور جماعت میں آپ نے ان کی قراء ت سنی جس پر آپ نے تنبیہ فرمائی۔ دن کی نماز میں تو قراء ت اونچی آواز سے ہے نہیں ، رات کی نماز آپ حجرہ مبارکہ میں پڑھتے تھے۔ عبدالله رضی اللہ عنہ بن حذیفہ کی قراء ت کیسے سن لی؟ اس لیے زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ یہ نماز باجماعت تھی۔ اگر اسے نفلی نماز پر ہی محمول کیا جائے تب بھی اس سے نماز میں قراء ت آہستہ پڑھنے کی دلیل ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے صرف یہی روایت ذکر نہیں کی بلکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت بھی لائے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ولیقرأ احدکم بفاتحۃ الکتاب فی نفسہ کہ تم امام کے پیچھے فاتحہ آہستہ پڑھو۔ جو ان کے مدعا پر صریح دلیل ہے، ا س لیے انھوں نے کوئی سینہ زوری اور تک بندی نہیں کی۔ سینہ زوری بلکہ دھوکا دہی سے تو ڈیروی صاحب کام لے رہے ہیں۔ یحییٰ بن جعفرپر کلام کا جواب رہی یہ بات کہ اس میں یحییٰ بن جعفر ’’متکلم فیہ‘‘ ہے ۔ بلاشبہ اس پر بعض نے کلام کیا
Flag Counter