Maktaba Wahhabi

173 - 377
اس لیے استذکار میں ’’ عمن شھد ذلک‘‘ کا واسطہ نہ تھا ۔ اس لیے اسے مرسل و منقطع کہا حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے جیساکہ التمہید کی سند سے وضاحت ہو جاتی ہے۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ پر خیانت کا الزام ڈیروی صاحب لکھتے ہیں :’’امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب القراء ۃ (ص ۵۲) میں امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب التاریخ الکبیر سے ابوقلابہ کی روایت بیان کی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا فرمان ’’ لا یصح عن انس‘‘ کہ انس رحمہ اللہ کا ذکر صحیح نہیں، چھوڑ دیا۔ پھر کتاب القراء ۃ (ص ۴۸) میں جزء القراء ۃ سے انس کی روایت بیان کرکے احتج بہ البخاری کہہ دیا ہے۔ عجیب خیانت کا ارتکاب کیا ہے الله تعالیٰ معاف فرمائے۔ (ایک نظر: ص ۲۶۶) مگر ڈیروی صاحب کا یہ اعتراض بھی بے سمجھی پر مبنی ہے کیونکہ امام بیہقی نے یہ روایت بواسطہ محمد بن سلیمان بن فارس الدلال النیسابوری ، امام بخاری سے نقل کی ہے، جب کہ التاریخ الکبیر کا مطبوعہ نسخہ محمد بن سہل بن کر دی کی روایت سے ہے اور علامہ عبدالرحمن المعلمی رحمہ اللہ نے موضح اوہام الجمع والتفریق کے مقدمہ میں دلائل سے ثابت کیا ہے کہ التاریخ الکبیر کا جو نسخہ محمد بن سلیمان سے منقول ہے اس میں اور جو محمد بن سہل کی روایت سے منقول ہے دونوں میں فرق ہے بلکہ ابن فارس کی روایت میں جو بعض اغلاط پائے جاتے ہیں وہ ابن سہل کی روایت میں نہیں۔ جب امر واقع یہ ہے تو محمد بن سہل کی روایت سے التاریخ الکبیر میں جو ’’ لا یصح عن انس‘‘ ہے اس کی بنیاد پر امام بیہقی رحمہ اللہ پر خیانت کا الزام سراسر حقائق سے بے خبری ہے یا دھوکا پر مبنی ہے۔ ڈیروی صاحب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ التاریخ الکبیر کا وہ نسخہ جو ابن فارس کی روایت سے ہے اس میں ’’ لا یصح عن انس‘‘ کے الفاظ ہیں مگر امام بیہقی رحمہ اللہ نے ذکر نہیں کیے۔ رہا جزء القراء ۃ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ کا فرمانا کہ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے حجت پکڑی ہے۔ تو یہ بظاہر صحیح معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب لا یجھر خلف الامام بالقراء ۃ میں پہلے حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت
Flag Counter