Maktaba Wahhabi

129 - 377
انھوں نے چھوڑ دیا ۔ اس طرح ابوحاتم رحمہ اللہ سے صدوق مستقیم الحدیث تونقل کر دیا لیکن اس کے آخر میں تھا ولکنہ اروی الناس عن الضعفاء والمجہولین ۔۔الخ لیکن ضعفاء اور مجہول راویوں سے زیادہ روایت کرنے والا ہے اور میرے نزدیک اس حد میں ہے کہ اگر کوئی شخص گھڑ کر حدیث اس کے سامنے پیش کرے تو نہیں سمجھتا اور صحیح اور مرفوع حدیث میں تمیز نہیں کر تا تھا۔ اس کو اثری صاحب نے چھوڑدیا۔ اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے جو کہا ہے کہ اگر عقیلی اسے ضعفاء میں ذکر نہ کرتے تو میں بھی اسے میزان میں ذکر نہ کرتا وہ مطلقاً ثقہ ہے۔ تو علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنا فیصلہ خود توڑا ہے اور ابوحاتم رحمہ اللہ کی تائید کی ہے۔ (ایک نظر: ص ۲۳۸،۲۵۹،۲۶۰) سلیمان بن عبدالرحمن ثقہ ہے حالانکہ سلیمان بن عبدالرحمن امام بخاری کے استادہیں۔ صحیح بخاری اور سنن اربعہ کے راوی ہیں او ر بالاتفاق ثقہ ہیں۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر امام عقیلی رحمہ اللہ انھیں ضعفاء میں ذکر نہ کرتے تو میں بھی میزان میں ان کا ذکر نہ کرتا کیونکہ وہ مطلقاً ثقہ ہیں(میزان: ج ۲ ص ۲۱۳) اور السیر(ج ۱ ۱ص ۱۳۶) میں انھیں الامام العالم الحافظ محدث دمشق ، کان من فرسان الحدیث کے بلند القاب سے یاد کیا ہے۔ البتہ امام صالح بن محمد رحمہ اللہ اور امام ابوحاتم رحمہ اللہ وغیرہ نے فرمایا کہ وہ ضعفاء ومجاھیل سے روایت کرتا ہے جیسا کہ ڈیروی صاحب نے ذکر کیا بلکہ الزام دیا ہے کہ خیانت ہو گئی ۔ مگر کوئی ان سے پوچھے کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب! ضعفاء سے روایت لینے سے راوی کیا ضعیف ہو جاتا ہے؟ قطعاً نہیں، اگر ایسا ہوتا تو محدثین سلیمان کو ثقہ و صدوق نہ کہتے، امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ، ضعفاء سے روایت لیتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ’’ لیس من مذھبہ ترک الروایۃ عن الضعفاء‘‘ ان کا یہ مذہب نہیں کہ ضعفاء سے روایت نہ لی جائے۔(تہذیب: ج ۲ ص ۵۰) تو کیا امام سفیان رحمہ اللہ بھی اس بنا پر باعث ضعف ہیں؟ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے شرح علل الترمذی لابن رجب (ص ۷۹) لہٰذا ضعیف سے روایت لینا جب راوی کے ضعف کا سبب نہیں تو اس کلام کو ذکر نہ کرنا کسی بددیانتی پر مبنی نہیں۔
Flag Counter