Maktaba Wahhabi

181 - 377
سند کے ساتھ یہ الفاظ بیان کرتے ہیں۔ لا صـلاۃ الا بقراء ۃ فاتحۃ الکتاب جبکہ ایک اور سند سے سلیمان، وہیب سے اور وہ جعفر سے اسی سند کے ساتھ لا صــلاۃ الا بقراء ۃ فاتحۃ الکتاب کے الفاظ نقل کرتے ہیں جیسا کہ عموماً روایات میں ہے۔ جعفر بن میمون کے علاوہ عبدالکریم بن رشید البصری جو ثقہ و صدوق ہیں اور ایک کلمہ بھی جرح کا ان پر نہیں۔ (تہذیب : ج ۶ ص ۳۷۲) ابوعثمان سے کبھی لا صلاۃ الا بقراء ۃ ولو بفاتحۃ الکتاب اور کبھی لا صــلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب کے الفاظ سے روایت کرتے اور انہی الفاظ سے جعفر رحمہ اللہ بن میمون بھی روایت کرتے ہیں۔ مگر لا صــلاۃ الا بقراء ۃ فاتحۃ الکتاب فما زادمیں جعفر رحمہ اللہ منفرد ہیں جیسا کہ امام عقیلی رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے۔بظاہر انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جعفر رحمہ اللہ کی روایت کے وہ الفاظ قبول کیے جائیں جن میں عبدالکریم نے اس کی موافقت کی ہے۔ اور وہ روایت عمومی روایات کے موافق بھی ہے۔ مگر امام بیہقی رحمہ اللہ کی انصاف پسندی دیکھیے کہ انھوں نے امام یحییٰ اور سفیان رحمہ اللہ کی روایت کے الفاظ کو راجح قرار دیا ۔ جس میں ’’ فما زاد‘‘ کا اضافہ ہے اور اس کے ساتھ ہی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مفسر روایت کی بنا پر فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ فاتحہ سے زائد پڑھا جائے لیکن اگر فاتحہ سے زائد نہ پڑھا جائے تو فاتحہ کافی ہے تاکہ دونوں میں تعارض نہ ہو۔ اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے جہاں پہلی بار (ص ۳) پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ذکر کی ہے اس کے معاً بعد ان کا یہ قول بھی ساتھ ہی ذکر کر دیا کہ یجزئ بفاتحۃ الکتاب و ان زاد فھو خیر کہ فاتحہ کافی ہے ۔ اگر زائد پڑھے تو بہتر ہے۔ اور صحیح بخاری باب القـراء ۃ فی الفجر میں الفاظ ہیں:’’ وإن لم تزد علی ام القرآن أجزأت و ان زدت فھو خیر‘‘ کہ اگر فاتحہ سے زائد نہ پڑھے تو فاتحہ کافی ہے اور اگر زیادہ پڑھے تو وہ بہتر ہے۔ اسی طرح امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا:’’ والامر بقـراء ۃ ما تیسر غیر فرض دل الاجماع علی ذلک‘‘ کہ فاتحہ سے زائد جس قدر قراء ۃ ہو فرض نہیں اجماع اس پر دلالت کرتا ہے (الاحسان :ج ۳ ص ۱۴۱) لہٰذا اگر یہ حضرات اس زیادت کو صحیح سمجھتے ہیں تو ان کے نزدیک اس کا وہ حکم قطعاً نہیں جو فاتحہ کا ہے۔ اس لیے ان کے حوالہ سے یہ دفاع بھی دھوکا پر مبنی ہے۔
Flag Counter