Maktaba Wahhabi

224 - 331
و لھما عن ابن مسعود رضی اللّٰه عنہ مرفوعا لَیْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُوْدَ وَ شَقَّ الْجُیُوْبَ وَ دَعَا بِدَعْوَی الْجَاھِلِیَّۃِ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنا چہرہ نوچے،کپڑے پھاڑے اور جاہلیت جیسے بول بولے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ یہ حدیث اُن نصوص میں سے ایک ہے جن میں وعید سنائی گئی اور تنبیہ کی گئی ہے۔سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اس قسم کی احادیث کی تاویل کرنا صحیح نہیں ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں گناہوں کے بارے میں ڈر اور خوف پیدا ہو اور لوگ ان برے اور مکروہ اعمال سے باز رہیں۔یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مذکورہ حدیث میں جن افعالِ قبیحہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ کمال توحید کے منافی ہیں۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’رخسار کا اس لئے خاص طور پر ذکر فرمایا کہ اکثر لوگ رُخسار ہی پر ہاتھ مارتے ہیں ورنہ چہرے کا کوئی حصہ پیٹنا بھی اسی قبیل میں داخل ہے۔‘‘ جیوب گریبان کو کہتے ہیں،گریبان پھاڑنا،اہل جاہلیت کی پرانی رسم ہے مرنے والے کے غم میں ایسا کیا جاتا ہے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’میت پر نوحہ کرنا زَمانہ جاہلیت کی عادت ہے۔‘‘ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اپنی قبائلی رسوم کی طرف لوگوں کو بلانا اور ان کو زندہ کرنا عصبیت کی دعوت دینا ہے۔کسی خاص مسئلے میں اپنے علماء اور مشائخ کے بارے میں تعصب سے کام لینا،بعض علماء کو بعض پر ایک خاص نوعیت کی فضیلت دینا،علماء و مشائخ کی وجہ سے ایک دوسرے سے دشمنی اور دوستی قائم کرنا،سب جاہلیت کی رسوم ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ ابن ماجہ میں ایک حدیث سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جسے ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے،حدیث کے الفاظ یہ ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ زخمی کرنے والی،گریبان پھاڑنے والی اور بین کرنے والی عورت پر لعنت کی ہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ افعال کبیرہ گناہوں سے ہیں۔دوسرے بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر کوئی شخص قضاء و قدر پر برافروختہ نہ ہو اور بین وغیرہ کرنے کی نیت بھی نہ ہو اور بات بھی جھوٹی نہ ہو تو ان افعال میں سے اگر معمولی فعل اتفاقاً سرزد ہو جائے تو وہ قابل مواخذہ نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر بعض صحابہ جیسے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اس قسم کی معمولی سی بات کا اظہار ثابت ہے جس کی تصریح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کی ہے۔
Flag Counter