Maktaba Wahhabi

92 - 331
حالانکہ وہ خود اتنے عاجز اور درماندہ ہیں کہ اپنی جان کے لئے بھی نفع مند ثابت نہیں ہو سکتے اور نہ اپنی تکالیف ہی کو ازخود دور کر سکتے ہیں۔اس صورت میں بھلا دوسروں کے کام کس طرح پورے کر سکتے ہیں؟ فیہ مسائل ٭ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا قنوتِ نازلہ پڑھنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سادات الاولیاء یعنی صحابہ کا آمین کہنا۔٭ جن کے لئے بددعا کی گئی تھی وہ کافر تھے۔٭ اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ سلوک کیا جو دوسرے کفار نے نہیں کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی کرنا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر آمادہ اور کوشاں ہونا،مسلمان شہداء کا مثلہ کرنا۔اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم ڈھانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی حالانکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار تھے اور بعض تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی تھے۔اِس قدر قریبی رشتے کی بھی اُنہوں نے کوئی پرواہ نہ کی۔٭ ان مظالم کے باوجود اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ ان کا انجامِ کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ و قدرت میں نہیں۔٭ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ’’ان کی توبہ قبول کرلے یا اُن کو عذاب دے۔‘‘ چنانچہ اللہ کریم نے ان کی توبہ قبول کی اور وہ ایمان لے آئے۔٭نزول حوادث کے موقع پر دُعائے قنوت پڑھنا۔٭ جن کے لئے بد دعا کی جارہی ہو اُن کے اور اُن کے آباء و اجداد کے نام نماز میں لینا۔٭قنوت میں کسی خاص شخص کا نام لے کر لعنت کرنا۔جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ ’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیے‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایک کو پکار کر عذابِ الٰہی سے ڈرانے کا واقعہ۔٭ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ توحید سنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجنون جیسے لقب سے پکارا جانا۔آج بھی اگر کوئی شخص دعوتِ توحید دے تو اُس کو بھی ایسے ہی القاب سے پکارا جاتا ہے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قریبی اور غیر قریبی سب کو علی الاعلان یہ فرمانا کہ میں تم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھی فرمایا کہ میں تم کو بھی عذاب الٰہی سے نہیں بچا سکوں گا۔سید المرسلین کا سیدۃُ نسائِ العالمین فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اس صراحت سے کہنا کہ میں تم کو اللہ کے عذاب سے محفوظ نہ رکھ سکوں گا،انسان کا یہ ایمان اور یقین کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سوائے حق کے دوسری بات نہیں نکلتی۔مندرجہ بالا صراحت کی روشنی میں آج کے حالات پر بھی غور کیجئے کہ جس میں صرف عوام ہی نہیں بلکہ بعض خواص بھی مبتلا ہیں تو آپ کو صحیح توحید صاف طور پر معلوم ہو گی اور دین کی بے بسی بھی واضح ہو جائے گی۔
Flag Counter