Maktaba Wahhabi

329 - 331
سے زیادہ قوی اور صحیح ہے۔مگر دونوں احادیث میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ یہاں سیادت اضافی مراد ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے۔لفظ ’’السید‘‘ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو گا تو اس وقت اس کے معنی:مالک،مولی اور ’’ربّ‘‘ کے ہوں گے۔وہ معنی مراد نہیں ہوں گے جو مخلوق پر استعمال کرتے وقت مراد لئے جاتے ہیں۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جن کے لئے یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا:وہاں سیادت کے وہ معنی نہیں ہیں جن معنی میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ فیہ مسائل ٭ مبالغہ آمیزی سے لوگوں کو ڈرانا۔٭باوجود اس کے کہ لوگوں نے سچی اور حق بات کہی تھی لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کہیں تم کو شیطان بہکا نہ دے۔‘‘ ٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ ’’میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے اُس مرتبہ سے جس پر اللہ کریم نے مجھے فائز کیا ہے،بڑھاؤ‘‘ کی وضاحت۔ بابُ: مَا جَاءَ فی قول اللّٰه تعالیٰ وَمَا قَدَرُوا اللّٰه حَقَّ قَدْرِہٖ وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ السَّمَاوَاتُ مَطْوِیّٰتٌ بِیَمِیْنِہٖ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ(الزمر:۶۷) ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اُس کی قدر کرنے کا حق ہے۔(اس کی قدرتِ کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ)قیامت کے روز پوری زمین اُس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اُس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔پاک اور بالاتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ علامہ ابن کثیر اس آیت کریمہ کی تفسیر میں رقمطراز ہیں کہ:’’اس میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ مشرکین نے اللہ کی کما حقہ قدر نہیں کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرنا بھی شروع کر دی۔اللہ کریم اُس درجہ عظمت و بلندی والا ہے کہ دوسرا کوئی اس کو نہیں پہنچ سکتا۔وہ ہر چیز پر قادر ہے،وہ ہر چیز کا مالک ہے،ہر چیز اس کے تصرف میں ہے۔‘‘ عن ابن مسعود رضی اللّٰه عنہ قَالَ جَآئَ حِبْرٌ مِّنَ الْاَحْبَارِ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فَقَالَ یَامُحَمَّدُ اِنَّا نَجِدُ اَنَّ اللّٰه یَجْعَلُ السَّمَاوَاتِ عَلٰی اِصْبَعٍ وَالْاَرْضِیْنَ عَلٰی اِصْبَعٍ
Flag Counter