Maktaba Wahhabi

280 - 331
مظلوم کے حوالے کر دی جائیں گی اور اگر ظالم کے اعمال میں نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کی برائیاں اٹھا کر ظالم پر ڈال دی جائیں گی اور اس فیصلہ میں فریقین پر ذرہ برابر زیادتی نہ ہو گی بلکہ عدل و انصاف سے فیصلہ ہو گا۔ ابوشریح رضی اللہ عنہ کی قوم نے جب دیکھا کہ ابوشریح عدل و انصاف سے فیصلہ کرتے ہیں اور فریقین ان سے خوش ہوتے ہیں تو وہ اپنے اس وصف کی وجہ سے ہر شخص کے منظورِ نظر بن گئے۔اسی کو صلح کہتے ہیں کیونکہ صلح کا دارومدار ہی رضا پر ہے نہ کہ دوسرے پر بوجھ ڈالنے اور یہود و نصاریٰ کی طرح کہانت پر اعتماد و انحصار کرنے پر۔ صلح کا دارومدار اس پر بھی نہیں کہ اہل جاہلیت کی طرح بڑوں کے اقوال کو مستند سمجھ لیا جائے۔چنانچہ وہ کتاب و سنت کے خلاف اپنے اکابر اور اسلاف سے فیصلہ کراتے تھے جیسے آجکل اہل طاغوت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پس پشت ڈال کر اپنی خواہشات اور مرضی کے مطابق فیصلے کرتے ہیں آجکل اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثریت اسی مرض میں مبتلا ہے۔ بعض مقلدین کا بھی یہی حال ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے جس کی تقلید کرتے ہیں اس کے قول پر اعتماد کرتے ہیں اور صحیح مسلک یعنی کتاب و سنت کو چھوڑے ہوئے ہیں۔انالله و انا الیہ راجعون۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنی کنیت رکھنا چاہے تو بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے بڑے لڑکے کے نام سے کنیت رکھے۔اس مسئلہ کی تائید میں محدثین کرام نے احادیث بھی نقل فرمائی ہیں فیہ مسائل ٭ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کی عزت و تکریم کرنی چاہیئے اگرچہ استعمال کرتے وقت اس کا معنی مقصود نہ ہو ٭ رب کریم کے اسماء و صفات کی عزت و تکریم کی وجہ سے نام تبدیل کرلینا۔٭ اپنی کنیت رکھتے وقت بڑے بیٹے کے نام کو اختیار کرنا۔ بابُ: من ھزل بشی فیہ ذکر اللّٰه او القرآن او الرسول اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ قرآن کریم،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی
Flag Counter