Maktaba Wahhabi

295 - 331
انسان کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے کہیں مختلف ہے،کیونکہ بعض اوقات کوئی شخص سائل کا سوال اس لئے پورا کر دیتا ہے کہ اس کی اپنی ضرورت پوری ہونے کی توقع ہوتی ہے۔یا سائل سے ڈر کر اس کا سوال پورا کرتا ہے حالانکہ اس کا دل مطمئن نہیں ہوتا۔اس کے باوجود دوسرے کی حاجت پوری کر دیتا ہے۔مخلوق الٰہی سے سوال کرنے والے کو چاہیئے کہ وہ اپنی ضرورت کو مسؤل کے ارادے اور اس کی خواہش پر چھوڑ دے اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ شائد وہ مجبور ہو کر میرا سوال پورا کرے۔ہاں خالق کائنات اور رب العالمین سے سوال کرتے وقت ایسا انداز اختیار نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لائق نہیں ہے اور تمام مخلوق سے مستغنی اور بے نیاز ہے اُس کی سخاوت اور اُس کا کرم کامل ترین ہے۔تمام مخلوق اس کی محتاج ہے کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے لمحہ برابر بھی بے نیاز اور مستغنی نہیں ہو سکتا،وہ جب دینے آتا ہے تو صرف کلام ہی کرتا ہے۔ایک حدیث میں ہے:’’رب کریم کے ہاتھ خزانوں سے پُر ہیں۔وہ دن بھی خرچ کرتا رہے تو ان میں کوئی کمی نہیں آ سکتی۔اللہ کے لئے غور تو کرو کہ اُس نے زمین و آسمان کی تخلیق سے لے کر آج تک کس قدر انعام و اکرام کئے ہیں؟ جو اس کے ہاتھوں میں ہے اس میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی۔اللہ کریم کے دوسرے ہاتھ میں انصاف ہے،اس کے ذریعہ سے کسی کو بلند کرتا ہے اور کسی کو گراتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی پر انعام و اکرام کی بارش کرتا ہے تو اپنی حکمت سے،اور اگر کسی کو محروم رکھتا ہے تو اس میں بھی اُس کی حکمت کے راز پوشیدہ ہیں۔وہ حکیم بھی ہے اور خبیر بھی۔پس سائل کو چاہیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگتے وقت پورے وثوق اور عزم سے مانگے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مجبور ہو کر نہیں دیتا اور نہ سوال کی بنا پر دیتا ہے۔ فیہ مسائل ٭ دعا میں ’’اگر تو چاہے‘‘ نہ کہنا چاہیئے۔٭ اس کے سبب کا بیان۔٭ سوال پورے وثوق سے کرنا چاہیئے ٭رغبت زیادہ ہونی چاہیئے۔٭ کثرتِ رغبت کے اسباب۔ بابُ: لَا یَقُوْلُ عَبْدِیْ وَ اُمَتِیْ اس باب میں اس مسئلہ کی وضاحت کی گئی ہے کہ کوئی شخص اپنے غلام کو ’’میرا
Flag Counter