Maktaba Wahhabi

261 - 331
فیہ مسائل ٭ نعمت کی پہچان اور اس کے اِنکار کی جتنی صورتیں ممکن تھیں،ان کی وضاحت کرنا۔٭اِنکار کی جتنی صورتیں ہیں وہ اکثر لوگوں کی زبان پر جاری ہیں۔٭ایسے کلام کا نام انکارِ نعمت ہے۔٭ دِلوں میں اجتماع ضدین پایا جانا۔ بابُ: فَلَا تَجْعَلُوْ ِللّٰه اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ پس جب تم جانتے ہو تو دُوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھہراؤ۔ فَلَا تَجْعَلُوْ ِللّٰه اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(البقرۃ:۲۲)۔ پس جب تم جانتے ہو تو دُوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھہراؤ۔ الند:مثل اور نظیر کو کہا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ’’ند‘‘ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان تمام عبادات کو یا کسی ایک عبادت کو غیر اللہ کے لئے ادا کرے۔جیسے بتوں کے پجاری اپنے معبودانِ باطل سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کو نفع پہنچانے اور ان سے تکلیف دُور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی سفارش بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کرتے ہیں۔پوری آیت اس طرح ہے:’’لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اُس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ان سب کا خالق ہے۔تمہارے بچنے کی توقع اِسی صورت سے ہو سکتی ہے۔وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کا فرش بچھایا،آسمان کی چھت بنائی،اُوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لئے رزق بہم پہنچایا پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مدمقابل نہ ٹھہراؤ۔‘‘ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ابوالعالیہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:’’اللہ کے شریک نہ بناؤ یعنی اس کے برابر شریک۔‘‘ ربیع بن انس،قتادہ،السدی،ابومالک اور اسماعیل بن ابی خالد نے بھی یہی معنی بیان کئے ہیں۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ:’’اپنے معبودانِ باطل کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہراؤ
Flag Counter