Maktaba Wahhabi

317 - 331
بابُ: مَا جَاءَ فی کَثْرَۃِ الْحَلْفِ اس باب میں بکثرت قسمیں کھانے کی ممانعت،اور اس پر وعید اور تہدید کی گئی ہے وَاحْفَظُوْا اَیْمَانَکُمْ(المائدہ:۸۹) اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’بغیر کفارہ ادا کئے اپنی قسموں کو یوں ہی نہ چھوڑ دیا کرو۔‘‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مفہوم نقل فرمایا ہے کہ:’’خواہ مخواہ قسمیں نہ کھائی جائیں۔‘‘ بعض اہل علم نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ:’’اپنی قسمیں توڑا نہ کرو۔‘‘ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے زیر نظر آیت کے وہی معنی مراد لئے ہیں جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ذکر کئے ہیں کیونکہ زیادہ قسمیں کھانا اور باربار قسم توڑنا آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔اس میں ایک برائی تو یہ ہے کہ قسم کو بالکل ہلکا سمجھا جاتا ہے۔اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا خیال نہیں کیا جاتا۔اس کے علاوہ اور بھی بہت سی برائیاں ہیں جو کمالِ توحید کے منافی ہیں۔ عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰه یَقُوْلُ الْحَلْفُ مَنْفَقَۃٌ لِلسِّلْعَۃِ مَمْحَقَۃٌ لِلْکَسَبِ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قسم کھانے سے سامانِ تجارت فروخت تو ہو جاتا ہے لیکن برکت ختم ہو جاتی ہے(بخاری ومسلم) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسان اپنے مال کے بارے میں یوں قسم اٹھاتا ہے کہ میں نے اس مال کو اتنی قیمت دے کر خریدا ہے اور مجھے اتنی قیمت مل رہی ہے تو خریدار اس کی قسم پر اعتبار کرتے ہوئے اور اس کو سچا سمجھتے ہوئے اصل قیمت سے زیادہ ادا کر دیتا ہے۔حالانکہ وہ اپنی قسم میں سچا نہیں ہوتا بلکہ جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس کو زیادہ قیمت ملے۔اس نے یہ جھوٹی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی،اس کو اس کی سزا یہ ملتی ہے کہ اس کے مال سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔برکت کا ختم ہو جانا اتنا بڑا نقصان ہے کہ اس نے جو جھوٹی قسم اٹھا کر معمولی سی قیمت زیادہ وصول کی تھی،وہ برکت ختم ہو جانے کی تلافی نہیں کر سکتی۔بعض اوقات تو اس قدر سزا ملتی
Flag Counter