Maktaba Wahhabi

226 - 331
مصیبت اور مشکل کے وقت اپنے چہرے کو نوچے،گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی سی آہ و بکا کرے۔٭ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کرنا چاہتا ہے اُس کی علامت اور نشانی۔٭ جس شخص کے بارے میں اللہ تعالیٰ برائی کا ارادہ کرے اُس کی علامت۔٭ جب اللہ تعالیٰ کسی شخص سے محبت کرنا چاہتا ہے تو اُس کی علامت۔٭ ناراضگی کی حرمت۔٭ مصائب و مشکلات میں محصور ہو جانے پر رضا کا اجر و ثواب۔ بابُ: مَا جَاءَ فی الریاء اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ریاکاری ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے اور اس سے نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ قول اللّٰه تعالیٰ قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا(الکہف:۱۱۰) کہہ دو اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کہ میں تو ایک اِنسان ہوں تم ہی جیسا،میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک اللہ ہی ہے۔پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو،اُسے چاہیئے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام یہ فرمان جاری کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اعلان کر دیں کہ میرے اندر نہ ربوبیت ہے اور نہ الوہیت کی کوئی صفت ہے،بلکہ یہ دونوں صفتیں صرف اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک لہ کے لئے مختص ہیں اور میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا متمنی ہو،اُسے اعمالِ صالحہ کرنے چاہئیں اور اُس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔آیت کا آخری لفظ ’’اَحَدًا‘‘ ہے جو نحوی لحاظ سے سیاقِ نہی میں نکرہ استعمال ہوا ہے اس میں عمومیت پائی جاتی ہے جس میں انبیاء،ملائکہ،صالحین اور اولیائے کرام وغیرہ سب شامل ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’علمائے سلف و خلف میں سے اکثر نے لِقَا کے یہ معنی کئے ہیں کہ مومن آدمی اللہ تعالیٰ کو بالمشافہ اور سامنے دیکھے گا۔‘‘ شیخ الاسلام نے رویت پر دلائل بھی ذکر فرمائے۔‘‘
Flag Counter