Maktaba Wahhabi

305 - 331
ایسے سچے مومنین آزمائش اور امتحان کے وقت شکوک و شبہات کا شکار نہیں ہوتے،اس لئے کہ یہ چیز تو ایمان کو کمزور کر دیتی ہے۔‘‘ شارح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اس قسم کے کمزور ایمان والے لوگوں کا مشاہدہ ہم نے بھی کیا ہے کہ دشمن کی قوت و طاقت اور ان کا غلبہ دیکھ کر ان لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف اُن کی مدد کی اور دین اسلام کے متعلق طرح طرح کی چہ میگوئیاں کرنے لگے۔مسلمانوں سے عداوت اور دشمنی کا علی الاعلان اظہار کیا اور پھر انہوں نے اسلام کے نور کو بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی ان کا سب سے بڑا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ اہل اسلام میں سے اہم افراد کو ختم کیا جائے۔‘‘ واللہ المستعان۔ وفی الصحیح عن ابی ھریرۃ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قَالَ اِحْرِصْ عَلٰی مَا یَنْفَعُکَ وَ اسْتَعِنْ بِاللّٰه وَ لَا تَعْجَزَنَّ وَ اِنْ اَصَابَکَ شیْیئٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ اَنِّیْ فَعَلْتُ کَذَا وَ کََذا لَکَانَ کَذَا وَ کَذَا وَ لٰکِنْ قُلْ قَدَّرَ اللّٰه وَ مَا شَآئَ فَعَلَ فَاِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطٰنِ صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:نفع بخش چیز کی حرص کر اور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگ اور عاجز نہ بن اور کسی وقت اگر مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو یہ نہ کہا کرو ’’اگر میں ایسا کرتا تو یوں ہوتا‘‘ بلکہ یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا اور جو اُس نے چاہا وہی ہوا کیونکہ ’’اگر‘‘ شیطانی عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ فیہ مسائل کسی ناگہانی مصیبت پر یہ کہنا سخت جرم اور گناہ ہے کہ ’’اگر میں یوں کرتا تو یہ مصیبت نہ آتی۔‘‘ ٭ لفظ ’’اگر‘‘ استعمال نہ کرنے کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ اس سے شیطانی اعمال کا دروازہ کھلتا ہے۔٭ اچھی گفتگو کی ترغیب۔٭اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے ایسے اعمال کا شوق دلایا گیا ہے جو نفع بخش ہیں۔٭ جو اس کے اُلٹ ہے،اُس یعنی عجز سے روکنا۔ بابُ: النھی عن سب الریح
Flag Counter