Maktaba Wahhabi

221 - 331
’’دل پر خوف کا غلبہ ہونا چاہیئے کیونکہ اگر خوف پر رجا غالب آگئی تو دِ ل کی دُنیا میں فساد برپا ہو جائے گا۔‘‘ مندرجہ ذیل آیاتِ قرآنی میں خوف کو اُمید سے مقدم گردانا گیا ہے اور پہلے ذکر کیا گیا ہے فرمایا:(ترجمہ)’’جو لوگ بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں یقینا ان کے لئے مغفرت ہے اور بڑا اجر۔‘‘(الملک:۱۲)۔’’وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دِل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آجائے گی۔‘‘(النور:۲۷)۔’’اور جو دے سکتے ہیں دیتے ہیں اور اُن کے دِل اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔یہی لوگ نیکیوں میں جلدی کرتے اور ان کے لئے آگے نکل جاتے ہیں۔(المؤمنون:۶۰ تا ۶۱)۔’’کیا جو رات کے اوقات میں سجدے اور قیام سے اللہ کی عبادت کرتا ہے اور آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کا اُمیدوار ہے۔‘‘(الزمر:۹)۔ بابُ: من الایمان باللّٰه الصبر علی اقدار اللّٰه اس باب میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر صبر کیا جائے۔ وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰه یَھْدِ قَلْبَہٗ وَ اللّٰه بِکُلِّ شَییئٍ عَلِیْمٌ(التغابن:۱۱)۔ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو،اللہ اُس کے دِل کو ہدایت بخشتا ہے اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں تقریباً نوے مقامات پر صبر کا ذکر فرمایا ہے۔صحیح مسلم اور مسند امام احمد کی ایک صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اَلصَّبْرُ ضِیَائٌ صبر ایک نور ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ صبر سے بہتر اور وُسعت پذیر چیز کسی کو نہیں دی گئی،اور پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول نقل کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں ’’ہم نے اپنی زندگی کے اُس حصہ کو بہتر پایا جس میں صبر ہے۔‘‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ایمان میں صبر کو وہی مقام حاصل ہے جو انسان کے بدن میں سر کو ہے یہ کہہ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے فرمایا دیکھو اُس شخص کا ایمان ہی نہیں جس میں صبر کی صلاحیت نہیں ہے۔‘‘
Flag Counter